SIZE
3 / 5

بات اگر صرف وٹے سٹے کی بھی ہوتی تو جاوید کا ردعمل فطری تھا۔ مگر بات تو اس کے اپنے دل کی ہی تھی ' جہاں سعدیہ کی محبت کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ ابا کے بعد صرف آٹھ برس کی عمر میں ہی وہ خود بخود سعدیہ کا باپ بن گیا تھا۔ ہمیشہ اسے اپنے ساتھ ' اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ کسی بہت قیمتی چیز کی طرح ' بڑا ہی سنبھال کر۔ چوڑیاں' شیشے کے برتن' چاندی کی پازیبیں' اور بہت سی کتابیں' ہر وہ چیز جو سعدیہ کو پسند تھی وہ اس کے لیے لازما لاتا۔

لڑکے بالے تو اپنی منگیتروں کے لیے لاتے ہیں تحفے اور تو کیسا جھلا ہے' بھلا بہنوں کا بھی اتنا کرتا ہے کوئی۔

" یہ تو مجھے بڑی ہی پیاری تھی پھر اس کے اتنے بڑے دکھ سے بے خبر کیوں رہا میں۔" جاوید اسے چپ چپ دیکھتا تو اپنے آپ کو برا بھلا کہتا۔

" کتنا برا کیا تیرے ساتھ ہم سب نے میری پیاری بہن! کتنا برا!" اسے رہ رہ

کر خود پر غصہ آتا، کتنے ہی دن تو وہ اسکول بھی نہ جا سکا تھا۔ اگر جاتا بھی تو بچوں کو الٹا سیدھا سبق دے کر فورا ہی لوٹ آتا۔

تب ہی ماں نے اسے یاد کروایا کہ وٹے سٹے کا ابھی ایک فرض اس کی طرف ادا کرنا باقی ہے۔ آمنہ کو طلاق دینا۔

" ہاں اماں! میں کل ہی یہ کام بھی پورا کرتا ہوں۔ اس کی بھائی کو بھی تو پتا چلے ناں ذرا۔۔۔۔۔" ماں نے بیٹے کے کندھے پر شاباش کی تھپکی دی۔

" آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے !" سعدیہ نے سنا تو زندگی میں پہلی بار اس کے سامنے بلند آواز سے بولی تھی۔

" تیرا گھر اس کے بھائی نے اجاڑا تھا۔ اب اس کی بہن کا گھر تیرا بھائی اجاڑے گا۔ وٹے سٹے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔" اماں نے بڑے فخر سے اسے حساب کتاب سمجھایا تھا۔

" اس کا بھائی تو جاہل تھا اماں ! لیکن میرا بھائی علم والا ہے۔ دوسروں کو علم کی روشنی بانٹتا ہے۔ جو اس نے کیا اگر بھائی بھی وہی کرے گا تو پھرعالم اور جاہل کا فرق کیسے ہو گا۔ سیاہ اور سفید کی تمیز کون کرے گا۔ آپ ہی بتاؤ ناں بھائی؟"

اس نے خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھے اپنے بھائی کندھا ہلایا۔ وہ اب بھی خاموش تھا۔

" اور پھر اماں! تو نے بھائی کے بچوں کا نہیں سوچا ' وہ رُل جائیں گے۔" اس نے ماں کو یاد دلایا۔

" تیرا بھی تو بچہ تھا ناں۔ جسے منصورنے اس دنیا میں پہلے ہی مار دیا۔ اس کا تو کسی نے نہیں سوچا ۔" اماں نے اسے لاجواب کردیا تھا۔ وہ چپ سی ہو گئی۔

" باقی رب سوہنا خیر کرے' آج میں اپنے بیٹے کا پھر سے بیاہ کر دوں' اللہ اور بچے دے دے گا' بچوں کا کیا ہے۔ اس مرن جوگے منصور کو تو سبق سکھانا ہے ناں۔" اماں نے پھر سے جاوید کو ہلا شیری دینا شروع کردی تھی۔

”اچھا اماں! میں اب چلتا ہوں۔ آج اسکول میں معائنے والی ٹیم نے آنا ہے کہیں دیر نہ ہو جائے۔" وہ دھیرے سے انہیں بتا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کی تھکن بھری چال اور جھکے ہوئے کندھوں نے سعدیہ کا دل تاسف سے بھر دیا تھا۔

" نکے کو بڑا ہی تیز بخار ہے۔ میں تو کل سے پٹیاں کر کرکے تھک گئی ہوں۔ مہوش کا بھی حال برا ہی ہے۔ وہ دونوں ہی پاپا' پاپا کرتے رہتے ہیں سارا دن اور میرا دل مجھے تو لگتا ہے' کسی دن بس رک ہی جانا ہے۔ ہروقت جاوید کی دهمکیاں میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ مجھے

بچا لے سعدیہ! تجھے تیرے علم کا واسطہ' اپنی کتابوں کا واسطہ! میرے بچوں کو بے آسرا ہونے سے بچا لے۔ اللہ جانتا ہے ' تیری بربادی میں ہمارا ریت کے ذرے جتنا بھی قصور نہیں ہے۔"

سارا دن وقفے وقفے سے اس کے موبائل پر آمنہ کے SMS آتے رہے تھے۔

رات گئے جب وہ گھر لوٹا تو اماں اندر کوٹھڑی میں عشاء کی نماز پڑھ رہی تھیں اور باہر چارپائی پر بیٹھی اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں رکھے' جانے کیا کچھ سوچ رہی تھی۔

" ایسے کیوں بیٹھی ہے میری گڈی؟" وہ چرپائی پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ جب وہ اسے بہت پیار سے بلانا چاہتا تو پھر گڈی ہی کہتا تھا۔ یہ اس کی بچپن سے عادت تھی۔