SIZE
4 / 5

" تیرے لیے پانی لاؤں بھائی!" وہ فورا ہی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ لہجے کی ناراضی واضح تھی۔

" چھوڑ' رہنے دے پانی کو' ادھر بیٹھ میرے پاس اور بتا مجھے' تو کیا چاہتی ہے۔ میری سوہنی گڈی!" جاوید نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ دوبارہ بٹھا لیا اور اپنا دایاں بازو اس کے کندھے پہ بڑھا کر بہت نرمی سے اسے اپنے ساتھ بھی لگا لیا تھا۔

" تم آمنہ اور بچوں کو گھر واپس لے آؤ بھائی! اور طلاق کے منحوس لفظ کو اپنے دل دماغ سے کہیں دور پھینک دو۔ میں بس یہی چاہتی ہوں۔" اپنے کندھے پر سے اس کا بازو ہٹاتے ہوۓ اس نے دو ٹوک بات کی۔

جاوید نے ایک لمبی سانس لے کر شاید اپنے اندر اٹھتے اضطراب کو روکنے کی سعی کی تھی۔

" پھر وہی جذباتی باتیں؟"

" نہ میرا بھائی' ایسا نہ بول تو اور میں تو علم والے ہیں' کتابوں کے دوست اور لفظوں کے شیدائی۔ ہمیں جاہلوں جیسا اندھا نہیں بننا ہے۔ ذراسوچ اس بارے میں۔"

سعدیہ نے اب خود اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا تھا۔

" کتاب۔۔۔۔ کتاب کی بات کرتی ہے ناں۔ اللہ کی کتاب سے بڑی کوئی کتاب نہیں ہے ناں دنیا میں ۔ اس کتاب میں لکھا ہے' بدلہ لو' پورا پورا بدلہ لو' آنکھ کے بدلے آنکھ' کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان۔"

جاوید نے اسے قائل کرنے کو بڑی پکی دلیل دی تھی۔

" مگر دل کے بدلے دل بھی توڑ دو۔ یہ تو نہیں لکھا ناں وہاں بھائی !" سعدیہ کے ایک جملے نے جاوید کو ششدر کردیا تھا۔

”ہاں دیکھو میری طرف' میرے ہاتھ' آنکھیں' كان' زبان کچھ بھی تو نہیں ضائع ہوا' سب کچھ تو ہے' منصور نے تو بس میرا دل ہی برباد کیا ہے ناں بھائی ! تواب اس کا تو بدلہ نہیں ہوتا ناں۔ بلکہ اللہ سوہنا تو کہتا ہے جس نے معاف کر دیا' بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیا تو پھر اس کا اجر میرے ذمے۔

میرا معاملہ بھی اب میرے رب کے ذمے اوربس وہی میرا ٹوٹا ہوا دل جوڑ دے گا۔ اپنی رحمت سے' اپنے فضل سے' مجھے کسی کا گھراجاڑ کر کوئی بدلہ نہیں لینا۔" بہت مضبوط لہجے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔

اگلے دن کی شام تھی' جب ان کے آنگن میں بچوں کا بہت سا شور اور جامن کے بہت سے خشک پتے تھے۔ جاوید خود جا کر آمنہ کو لے آیا تھا۔ اماں ابھی تو ناراض تھیں مگر سعدیہ کو یقین تھا کہ وہ رفته رفتہ مان ہی جائیں گی۔

آمنہ کی آنکھوں میں سعدیہ کے لیے شکر گزاری کے بہت سے آنسو تھے۔ جنہیں وہ اس کے پاس بیٹھی بہا رہی تھی۔

" جو سنتا ہے حیران رہ جا تا ہے۔ سعدیہ کے پاس اتنا حوصلہ' اتنا جگرا آیا کہاں سے' اب تو ہی بتا' میں تیرا کیسے شکریہ ادا کروں؟" اور سعدیہ کے سامنے ہاتھ باربار باندھ دیتی تھی۔