SIZE
2 / 5

آمنہ نے سرسری سے لہجے میں بات کر کے' اپنے تئیں اسے ٹٹولنے کی کوشش کی تھی' سعدیہ کے چہرے پر ہلکا سا لہرایا تو تھا مگر وہ صاف چھپا گئی۔

" سیدھی طرح کہہ دے ناں کہ تجھے خود میرے پیارے بھائی جاویدکے گھر میں اترنے کی جلدی ہے۔" سعدیہ نے الٹا اسی پر بات ڈال دی تھی۔

" بھائی منظور میرا سگا بھائی ہے۔ مگر غصے کا اتنا تیز ہے نا کہ۔۔۔۔۔ ذرا دیکھ توغور سے' شاید تیری کتابوں میں پتھ دلوں کو موم کرنے کا بھی کوئی منت لکھا رکھاہو۔"آمنہ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا کر رونے لگی تھی۔ کاش میں تجھے بچا سکتی۔ اس وٹے سٹے کے عذاب سے نکال

سکتی۔ "

" یہ تو ہمارے والدین کا فیصلہ ہے پاگل لڑکی! اور والدین کا اپنی اولاد کے لیے کیا جانے والا ہر فیصلہ ہی بہترین ہوتا ہے۔ میں نے خود ان کتابوں میں پڑھا ہے۔ سعدیہ کی آنکھیں بھیگی مگر ہونٹ مسکراۓ تھے۔" اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے سہیلی کہ وقت آنے پر یہی علم نہ صرف میرا سہارا بنے گا بلکہ میں تمہارا ہاتھ بھی پکڑ لوں گی۔"

" اچھا تو پھر کھا زرا میرے سر کی قسم۔" آمنہ کو اس کی بہادری پر حیرانی تھی۔

حیرت زدہ توخود سعدیہ بھی رہ گئی تھی۔ منصور کے رویے پر' اس کی شدت پسندی پر' اس کی جہالت پر' غصہ' ڈانٹ پھٹکار' ڈانٹ' مار پیٹ اور بالاخر تین برس بعد ہی بے اولادی کا طعنہ۔ سعدیہ نے بڑے ہی صبر سے یہ سب سہا تھا۔ اپنی ہی کتابوں اور لفظوں کو اپنے شوہر کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھا تھا اور سب کچھ اپنی جان پر سہا تھا اور پھر ایک دن منصور نے اسے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔

ماں تو پھر بھی تھوڑا بہت جانتی تھی لیکن جاوید کے لیے یہ صدمہ بڑا تو تھا ہی مگر غیر متوقع بھی۔ منصور اس کا تایا زاد سہی مگر دونوں میں بچپن سے ہی اک عجیب سی بیگانگی اور لا تعلقی بھی ۔ کبھی کبھار کی ملاقات کا تاثر خوشگوار نہیں تو نا گوار بھی نہیں تھا۔ ہاں مگر اپنی بہن اسے بڑی ہی پیاری تھی۔

”ماں کہتی ہے' ابے نے تیری منگنی میرے وٹے میں آمنہ کے بھائی منصور سے طے کر دی تھی' خیر یہ تو بڑی پرانی بات ہے۔ اب تو بتا دے' کیا کرنا ہے۔ اگر تو خوش نہیں تو ابے کے بعد میں کھڑا ہوں تیرے ساتھ ۔ سنا ہے' وہ بڑا اتھرا ہے۔ آج ہی دونوں رشتے توڑ دوں گا۔"

شادی سے چھ مہینے پہلے جاوید نے اسے بہت پیار سے ساتھ بٹھا کر کہا تھا ۔ سعدیہ نے اس سنہری موقع کو بھی ضائع کر دیا کیونکہ اسی لمحے اس کی آنکھوں میں آمنہ کا سونے جیسی لشکیں مارتا چہرا آ گیا تھا جو بچپن سے اس کے بھائی کی دیوانی تھی۔

"تم ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ اور جا کر اپنے بھائی سے کہہ دینا' سعدیہ کا بھائی ابھی زندہ ہے۔ وہ لاوارث نہیں ہے اور ہاں اب وہ اپنی بہن کی طلاق کا انتظار کرے۔ اللہ نے چاہا تو بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا اسے۔"

سعدیہ کی طلاق کا چوتھا دن تھا' جب جاوید نے یہ سب نوکیلے جملے' آمنہ کے دل میں گاڑ کر اسے بھی اپنے گھر سے نکال دیا تھا۔