SIZE
2 / 6

دسمبر 2011

ہمارا یونیورسٹی کا ٹرپ تھا . تھر کے علاقوں میں جا کر ہم نے وہاں کے مسائل پر ایک ڈاکومنٹری بھی بنانی تھی . اپنی اسائنمنٹ کی ذمہ داری الگ ، لیکن وہ جو ہم سب میں ایک " پارٹی آل نائٹ" کا نشہ تھا . وہ ہر بار سامنے آ کر ہم سے ویسے ہی کام کرواتا تھا . ڈاکومنٹری بھی بنتی رہی . ہم نے تھر کی ریتلی نائٹ میں بون فائر کیا . وہاں بھی کچے پکے کھانے کھائے، لیکن " فن ٹائم " تھا . کوئی پروا نہیں تھی . بہت مزہ آیا . بہت ایڈونچر کیا ، لکڑیوں پر پکے خانے کھا کر....

*********************************

دسمبر 2014

میری شادی کو تقریبا تین سال ہو چکے تھے .یونیورسٹی اور کنوارے پن کی لائف ایک یاد بن کر رہ گئی ہے . میری شادی باجی کے دیوار سے ہوئی ہے . یہ ہماری لو پلس ارینج میرج ہے . حامد مجھ پر جان چھڑکتے ہیں . میرا پیرا سا ڈیڑھ سال کا بیٹا ہے . زندگی میں بس پیار ہے ، کوئی مسلہ نہیں ہے لیکن .... ہمارے گھر کا ایک بہت بڑا مسلہ ہے . یہ مسلہ آج کل بہت اذیت پکڑ چکا ہے .

جیسے ہی سردی کا آغاز ہوا ہے . گھر کے چولہوں سے گیس غائب ہو گئی تھی .

" بھابی چاۓ...." حامد کھانے کی میز پر بیٹھے چلا رہے تھے .

" کہاں سے دوں گیس ہی نہیں ہے ." باجی بولی تھیں .

شایان کے لئے دودھ گرم کرنا تھا . گیس غائب .... " کیا مصیبت ہے " میں روہانسی ہو گئی تھی .

" اف الله اتنی سردی ہے . گیزر نہیں چل رہا . مجھے نہا کر جانا ہے . میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ." باجی کے میاں بیزاری سے بولے تھے .

**************************

کتنے ہی دن میری نند جو ہالینڈ سے آئی تھیں . سب کو غصہ کرتے ، حکومت کو گالیاں دیتے دیکھتی اور سنتی رہی تھیں . وہ ہماری باتیں ماتھے پر بل ڈال کر سنتی تھیں .

" پاکستان میں رہنا کسی عذاب سے کم نہیں ہے . نہ بجلی ہے نہ پانی اور اب گیس کا مسلہ. " باجی غصے سے بڑبڑا رہی تھیں . دونوں وقت کھانا باہر سے آ رہا تھا .

کبھی کڑاہی آرڈر ہو رہی تھی . کبھی رات میں پزا برگر آرڈر ہو رہے تھے . ملازموں کو بھی یہ ہی کچھ کھانے کو ملتا .

میری ساس نان برے برے منہ بنا کر کھاتیں. ان کو ہاضمے کا مسلہ تھا . گھر کی پکی چپاتی کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی .

اول تو گیس آتی نہیں ، اگر آ جاتی تو شعلہ اس قدر کم ہوتا کہ روٹی توے پر اکڑ جاتی تھی . ہم سب بہت تنگ تھے . حکومت اور ملک کو برا بھلا کہہ رہے تھے .

*****************************