SIZE
4 / 24

" تم بہت بھولی ہو دیبا! یہ سب کام سے بچنے کے طریقے ہیں ورنہ بازار تو شام کو بھی جایا جا سکتا ہے' ہماری بھابھی کو دیکھ لو اپنے میکے جاتی ہیں، دو چار دن کے لیے تو اسی حساب سے چار چھ سالن بنا کر فریز کر کے جاتی ہیں۔ ہمیں بس روٹیاں منگوانا پڑتی ہیں بازار سے۔"

دیبا سے اس بار کوئی جواب نہ بن پڑا ۔

" تم تو خیر کام میں دلچسپی نہیں لیتیں ، مگر بے چاری خالہ امی پر بہت رحم آتا ہے، برا مت ماننا۔ " دیبا کی نگاہیں سامنے کچن کے کھلے ہوئے دروازے سے دکھائی دیتی امی پر جا رکیں۔

بارش کے بعد موسم کچھ بہتر تو ہوا تھا مگر پھر بھی گرمی تو گرمی ہی تھی۔ حالانکہ ایسی بات بھی نہیں تھی کہ وہ سرے سے کسی کام کو ہاتھ ہی نہیں لگاتی ہو مگر اس کے کام یوں ہی چلتے پھرتے ہوتے تھے نہ دکھائی دینے والے۔ وہ خود بھی ان کا حوالہ دیتے ہوئے شرماتی۔

"نازہ آپا تو تمہاری بہن بھی ہیں' ان کی بات اور ہے مگر بشری بھابھی کو تو تھوڑا ٹائٹ رکھا کرو۔" دبے دبے لہجے میں زوبیہ نے مزید خلوص جتایا ۔ یہ مشورہ وہ اس وقت سے دے رہی تھی جب سے بڑی بھابھی نے اس گھر میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت بھی وہ کچھ خاموش سی ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

" دیبا! دیبا بیٹی !" گھر کے داخلی دروازے پر رفیعہ چچی کھڑی تھیں ہاتھ میں سالن کا بڑا ڈونگہ اٹھائے۔ کل وہ اطلاع دے گئی تھیں کہ ساری رات ہلکی آنچ پر پائے کا سالن پکانے والی ہیں۔ اس وقت یقیناََ وہی لے کر آئی تھیں۔

" اندر آ جائیں نا چچی ! " ان کے ہاتھ سے ڈونگہ لیتے ہوئے وہ کہنے لگی' مگر اس وقت وہ جلدی میں تھیں۔

" پھر آؤں گی' ایاز کے آنے کے بعد' تمہارے چچا نے اپنے دو تین دوستوں کو دوپہر کے کھانے پر بلایا ہے پہلے ان سے فارغ ہو جاؤں۔" وہ اکثر کچھ نہ کچھ پکا کر لے آتی تھیں۔ پکانے کی بے حد شوقین تھیں اور اچھا کھانے اور دعوتیں کرنے کے۔

زوبیہ جو اس کے پیچھے ہی اٹھ کر آئی تھی' رہ نہ سکی۔

" ساری محبت آپ کی ان ہی لوگوں کے لیے ہے۔ ہمارے ہاں تو کبھی کچھ نہیں بھیجتیں۔"

"تمہارا گھر دور ہے' مجھ سے اتنی دور پیدل نہیں چلا جاتا۔ " رفیعہ چچی نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ زوبیہ پر ڈالی اور پھر سے دیبا کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

" جو بات کرنے آئی تھی' وہی دماغ سے نکل گئی' لڑکی دیکھنے چلنا ہے، تم فارغ ہو تو آج ہی شام کو چلیں ورنہ۔۔۔"

" کل کا رکھ لیں چچی ! آج تو موسم ویسے بھی کچھ عجیب سا ہو رہا ہے۔" دیبا نے آسمان پر نگاہ ڈالتے ہوۓ مشورہ دیا۔ بادل پھر سے اکٹھے ہو رہے تھے اور ہوا بھی کچھ کچھ رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

" چلو ٹھیک ہے، پھر میں انہیں فون کر کے کل شام کا کہہ دیتی ہوں۔" وہ فوراََ مان کر واپس پلٹ گئیں۔

ایاز کے لیے سال بھر سے لڑکی دیکھی جا رہی تھی۔ چچی کو دیبا کا بہت سہارا تھا، کہیں بھی اس کے بغیر نہیں جاتی تھیں۔

" آج کل کی لڑکیوں کی مجھے کیا پہچان۔ مجھ سے تو بات بھی نہیں ہوتی ڈھنگ سے' دیبا سمجھ دار ہے' صحیح مشورہ دے سکتی ہے اور بات چیت بھی اچھی طرح کر لیتی ہے " شہر بھر میں وہی تھیں جنہوں نے دیبا کو سمجھ داری کا سر ٹیفکیٹ عطا کیا ہوا تھا اور وہ ان کی محبت کے بل پر بہ خوشی سر کے بل بھی جانے کو تیار رہتی تھی۔