" بس کیا کریں۔ ہمارا تو دل ہی ایسا ہے۔" وہ معصومیت سے مسکرا دیں۔
سب سے چھوٹا بیٹا ہر وقت ان کی گود میں سوار رہتا تھا' سال کا ہونے والا تھا مگر نہ تو اسے اپنی وا کر میں گھومنا پسند تھا اور نہ ہی وہ گھٹنوں چلنے پر تیار ہوتا' جہاں گود سے اتارا' اس بری طرح چیخ چیخ کر روتا کہ گھر والوں کو ہی درخواست کرنی پڑتی کہ نازو بھابھی بھی سارے کام چھوڑ کر اسے گود میں لے لیں۔
چھوٹی بھابھی بشری ہی تھیں جو بچے کی عادتیں زیادہ بگڑنے کا واویلا کرتی رہتیں، ایک دن تو جب بڑی بھابھی اپنے میکے گئی ہوئی تھیں' انہوں نے صاف لفظوں میں یہاں تک کہا تھا کہ نازو بھا بھی نے جان بوجھ کربچے کی عادت خراب کی ہے تاکہ گھر کے کاموں سے چُھٹی رہیں۔
امی نے ان کی بات کا بہت برا مانا تھا اور سختی سے تنبیہہ بھی کی تھی کہ آئندہ بولتے ہوئے وہ ذرا احتیاط رکھیں تو اچھا ہے۔ نازو بھابھی ان کی سگی بھانجی تھیں اور بشری سعید بھائی کی پسند، جسے انہیں مجبورا اپنانا پڑا۔ لہذا فرق لازمی تھا۔
" تمہارا سوٹ تو بہت اچھا لگ رہا ہے کب بنایا ؟" ناشتہ کرتے ہوئے اس کا دھیان پھر زوبیہ کے سوٹ پر گیا۔
" کئی دن پہلے لیا تھا یوں ہی رکھا تھا، پہنا ہی نہیں گیا۔ کیسا سیا ہے میں نے؟" رات ہی سل کر آئے سوٹ کا کریڈٹ بڑی صفائی سے خود لیتے ہوئے وہ پوچھنے لگی۔ دیبا کا نوالہ ہاتھ میں ہی رہ گیا۔
" واقعی خود سیا ہے ؟" بے حد خوب صورت شرٹ تھی اور اسے پتا تھا کہ یہ ڈیزائن اگر درزی کو دیا توکم از کم ڈھائی تین سو تو لے ہی لے گا۔
" امی تو کہہ بھی رہی تھیں کہ کیا ضرورت ہے اتنی محنت کرنے کی جا کر سیدھا سیدھا درزی کو دے دو مگر میرا دل نہ مانا' بے کار میں اتنے پیسے ضائع کرنے۔ "
"ہائے۔۔۔۔ چھوٹی خالہ کتنی اچھی ہیں ہماری امی تو دو سوٹ سلوا کر دو مہینے شور کرتی ہیں۔ " اسے زوبیہ پر رشک بھی آتا اور اس کی بے وقوفی پر غصہ بھی۔ اگر وہ چھوٹی خالہ کی بیٹی ہوتی تو کبھی ان کاموں پر جان نہ مارا کرتی، یہ تو زوبیہ کو ہی شوق تھا سلیقہ مندی کا۔
" تمہارے ہاں پراٹھے بہت اچھے بنتے ہیں۔" زوبیہ ناشتے میں شریک تھی، کپڑوں کے موضوع کو وہ زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتی تھی خوامخواہ کوئی الٹی سیدھی بات منہ سے نکل جاتی سلائی کے متعلق۔ جھوٹ کے پاؤں کہاں بھلا' تعریف سننی تھی، سوسن لی۔
" امی واقعی بہت اچھے پراٹھے بناتی ہیں۔ سب کو پسند آتے ہیں۔ کوئی اور بنائے تو اچھے ہی نہیں لگتے۔" دیبا جتانے لگی۔
امی نے صبح کی یہ ڈیوٹی بہ خوشی اپنے ذمے لے رکھی تھی بڑے ، چھوٹے دونوں بھائیوں کے آفس جانے کے وقت سے لے کر گھر کے ایک ایک فرد کے اٹھنے تک انہیں بار بار چولہے کے آگے بیٹھنا پڑتا۔ بشری بھابھی البتہ ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتی تھیں اور ان کے دونوں بچے بھی ابھی بہت چھوٹے تھے سو وہ بھی انڈا' یا کارن فلیکس قسم کے ناشتے تک محدود تھے۔
" تمہاری چھوٹی بھابھی نظر نہیں آ رہیں۔ " زوبیہ نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں تو اسے بھی بشری کی کمی کا احساس ہوا۔ امی سے پوچھا تو پتا چلا وہ چھوٹے والے کو ٹیکہ لگوانے قریبی اسپتال گئی ہوئی ہیں۔
" اتنی دیر۔۔۔ میں تو جب بھی آتی ہوں بشری بھا بھی کہیں نہ کہیں گئی ہوتی ہیں۔ پرسوں بھی جب آئی تو گھر پر نہیں تھیں۔"
پرسوں تو وہ امی کی کچھ چیزیں لینے گئی تھیں مارکیٹ ۔ " دیبا نے بشری کی صفائی دینی چاہی مگر زوبیہ کے چہرے پر بڑی طنزیہ مسکراہٹ آبھری۔