" آخر کیسی لڑکی ڈھونڈی جا رہی ہے ایاز کے لیے جو کے ملنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔" دروازہ بند کر کے واپس اندر آتے ہوئے زوبیہ بڑے تپے تپے لہجے میں بولی۔ اسے قلق بھی بہت تھا، ہزاروں میں ایک تو وہ خود تھی' مگروہ ان لوگوں کو نظر ہی نہیں آ رہی تھی' نہ انہیں اور نہ ایاز کو۔
" پتا نہیں کیوں دیر ہو رہی ہے میں اور چچی تو ہر لڑکی کو پسند کر آتے ہیں، مگر ہر بار کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ دیبا کی خود سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ کام تکمیل کو پہنچ کیوں نہیں رہا۔ وہ واپس برآمدے کی طرف جانے کے بجائے کچن میں چلی گئی' امی گوشت چڑھا چکی تھیں اور اب دوسرے کام سمیٹنے کی فکر میں تھیں۔
"آپ جائیں اندر' بہت دیر سے گرمی میں کھڑی ہیں۔ بشری بھابھی کو تھوڑا سا کام کر کے نکلنا چا ہیے تھا گھر سے۔" زوبیہ کا ازبر کیا ہوا سبق ابھی تازہ تھا تو وہ تھوڑی سی تلخ ہونے لگی۔
" وہ بے چاری تو کافی کام کر کے گئی ہے رات کے سارے برتن پڑے تھے۔ اس نے دھو کر رکھے' آٹا بھی گوندھ کر فریج میں رکھا، آج صفائی والی ماسی نہیں آئی' کمرے اور صحن کی بھی صفائی کی۔ وقت تنگ ہو رہا تھا ورنہ وہ برآمدے کی بھی کر جاتی۔ " امی انصاف پسند تھیں انہوں نے دیبا کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فوراََ بشری بھابھی کی کارکردگی جتائی۔
"روٹی بھی کہہ رہی تھی کہ آ کر پکا لوں گی۔"
" نہیں خیر۔۔۔ اب اتنی گرمی میں آئیں گی، روٹی پکانے میں کون سی دیر لگتی ہے میں خود پکا لوں گی۔" دیبا کو شرمندگی سی ہوئی۔
اس نے زوبیہ کی باتوں میں اگر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ ورنہ کچن بھی بالکل صاف تھا اور سامنے پھیلا بڑا سا صحن بھی چمک رہا تھا، محض برآمدے کی افراتفری کو لے کر زوبیہ نے اتنی باتیں بنا ڈالی تھیں۔ وہ آٹا فریج سے نکالتے ہوئے سوچنے لگی۔
" برتن تو کھڑے کھڑے منٹوں میں دھل جاتے ہیں ۔ اصل کام تو گرمی میں روٹی پکانا ہے، بشری بھابھی بہت عقل مند ہیں۔ کام بھی آسان والے کرتی ہیں اور نام بھی ہو جاتا ہے۔ " زوبیہ پھر تبصرہ شروع کر چکی تھی۔ دیبا خاموش رہی شاید زوبیہ ٹھیک کہتی تھی۔ نازو بھابھی کا بیٹا بری طرح چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ اسے یقیناً چند منٹ کے لیے گود سے اتارا گیا تھا۔
" اب سارا دن کیا گود میں ہی چڑھائے رکھوں، میرا تو ہاتھ بھی شل ہو کر رہ گیا ہے۔" باہر سے نازو بھا بھی کی جھنجلائی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی، زوبیہ بشری کو چھوڑ کر بہن کی ہمدردی میں مبتلا ہونے لگی۔
" بے چاری نازو آپا ! عاجز کر دیا بچے نے انہیں' میں جا کر ان کے بازو کی مالش کردوں کچھ تو آرام آئے گا۔" زوبیہ کو کچن کے گرم ماحول سے نکلنے کے لیے بہانہ مل گیا۔
دیبا روٹی پکانے کے بعد فارغ ہو کر اندر آئی تو دونوں بہنیں پنکھے کے نیچے آرام سے بیٹھی کسی بات پر بہت سے ہنس رہی تھیں، اسے دیکھ کر ایک دم سنجیدہ ہوئیں۔
" میں چلتی ہوں اب' امی انتظار کر رہی ہوں گی۔
" رک جاؤ اب کھانا کھا کر ہی چلی جانا۔ " وہ ہمیشہ پر احسان دھر کر رکتی تھی۔ اس وقت بھی رک گئی' گھر میں پکی مونگ کی دال کی کھچڑی کھانے کا ویسے بھی موڈ نہیں ہو رہا تھا۔
دیبا واپس چلی گئی تو زوبیہ کو کچھ یاد آیا۔