SIZE
4 / 6

کوئی پروا نہیں تھی.

"مجھے تیرے سوا کچھ نہیں چاہیے پگلی!" وہ اکثر اسے کہتا. "جب تو میرے ساتھ ہوتی ہے تو میں ہر غم بھول جاتا ہوں..... مجھے صرف تو

ہی یاد رہ جاتی ہے".

وہ ماہ بانو کا دیوانہ تھا. اسکو بانو کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن بانو اس وقت سے ڈرتی تھی جب ہر مرد کی طرح شکیل کے دل

میں بھی وارث کی خواھش جنم لے.

.........................................................................

ببلو کے لئے اسکی محبت اور سدت میں اضافہ ہوتا گیا. وہ جانتی تھی کہ کبھی ماں نہیں بن سکتی. اسکے اردگرد مکمل اندھیرا تھا.

ببلو اس اندھیرے میں روشنی کا احساس تھا. ماہ بانو بھلا کیوں نہ پروانہ بن کر اسکے گرد ناچتی.

اس نے مرید کی نظروں سے ٹپکتی ہوسناکی کو نظر انداز کر دیا. اس کے بڑھتے ہاتھوں کی ناپاک خواہش کو وو اکثر جان بوجھ کے

نظر انداز کر دیتی. وہ جانتی تھی کہ ببلو کا باپ ہونے کے ناتے وہ ببلو کو ماہ بانو سے ملنے سے روک سکتا تھا. لحظہ وہ اسکی

حرکتوں کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر چپ چاپ پی جاتی. اگر وہ شکیل کو بتاتی تو نتیجہ یہاں بھی ببلو کی جدائی کی صورت میں بھگتنا

پڑتا. لہٰذا ماہ بانو یہاں بھی اپنے لئے کوئی راستہ نہ پاتی تھی.

اس روز وہ ببلو کو سلا کر خود غسل خانے میں نہانے کے لئے گھس گئی کچھ دیر بعد بھر نکلی تو نگاہ دروازے کی کنڈی پر پڑی.

کنڈی کھلی ہوئی تھی، شاید جلدی میں لگانا بھول گئی تھی. وہ دروازے کی جانب بڑھی ہی تھی کہ ایک ہاتھ سختی سے اسکے لبوں پر

جم گیا. دوسرے ہاتھ سے گھسیٹا ہوا اسکو دوسرے کمرے میں لے گیا.

ماہ بانو نے چخننے کی کوشش کی لیکن اسکی چیخیں اسکے حلق میں گھٹ کر رہ گئیں. شیطان نجانے کس راستے معصوم کدے میں

گھس آیا. بدقسمتی نے نجانے کس روزن سے جھانکا تھا. ماہ بانو سمجھ نہ سکی.

مرید اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب ہوکر فرار ہوگیا. ماہ بانو اپنا سسکتا وجود اور اور زخمی روح لے کر تڑپتی رہی. گھٹ گھٹ کر

روٹی رہی. وہ ایسے مقام پر تھی کسی سے دو بول ہمدری سے بھی نہ مانگ سکتی تھی.

ببلو اٹھا تو بانو نے اسکو جی بھر کے پیار کر کے اسکو گھر سے نکل کر کنڈی لگا لی. ببلو ہی وہ روزن تھا جہاں سے لٹیرے کو گھر

میں گھسنے کا اشارہ ملا. بانو کو لٹ کر عقل آئی تھی، خود کو محفو رکھنے کا خیال آیا تھا.

شکیل کے آنے سے پہلے وہ خود پر قابو پا چکی تھی. لوٹیرے کے گھر میں در آنے کے سارے نشان مٹا چکی تھی. شکیل کا استقبال اس

نے ہمیشہ کی طرح مسکرا کر کیا. شکیل اسکی مسکراہٹ کی مردنی کا راز نہ جان سکا.

.........................................................