SIZE
2 / 12

" زوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن جب سے میں اس گھر میں آئی ہوں امی کے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک رمق بھی نہیں دیکھی۔ پتہ نہیں کیا بات ہے حالانکہ انہوں نے ہی مجھے پسند کیے تھا' کوئی ہماری لو میرج بھی نہیں جس کا انہوں نے اثر لے لیا ہو۔"

" ارے تم بھی ناں' معاملے کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو۔" وہ ہنسا۔ " بھئی بڑھاپا اور بیماری مزاج کو ایسے ہی تباہ و برباد کر دیتے ہیں' امی کئی سالوں سے شوگر اور بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں دونوں کی کمی بیشی مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کر دیتی ہے۔ تم سمجھنا سیکھو انہیں' آہستہ آہستہ اس کے موڈ کی عادی ہو جاؤ گی تم۔"

" تمہیں پتہ ہے میری ممی ایک حصے سے مفلوج ہیں ' اس کے باوجود ان کی ہمت اور قوت ارادی انہیں مسکراہٹ عطا کرتی ہے اور وہ بے تحاشا بولنے کی کوشش بھی کرتی ہیں خواہ کسی کو سمجھ آۓ یا نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ امی کی خوش مزاجی' صحت مندی کی مرہون منت ہے۔"

"اف اوہو۔۔۔۔۔ ، تمہاری بحث میں یہ انڈوں کا حلوہ اورنہاری یخ بستہ ہوۓ جا رہے ہیں۔ تمہیں سوچنے سے کوئی نہیں روک سکتا' مجھے تو آج سے آفس جوائن کرنا ہے اس لیے ڈٹ کر ناشتہ کرنا ہے۔" اس نے بھرپور انصاف کرنا شروع کیا۔

" اور ویسے بھی۔۔۔۔۔ نئی دلہن کو شوہر کے متعلق زیادہ سوچنا چاہیے نہ کہ ساس کو۔" ذومعنی جملے پر وہ نظریں جھکا گئی لیکن اندر کی الجھن سلجھ نہ سکی۔

ساس کا یہ رویہ اس کی سوچ کے برعکس نہ تھا' یہ پتہ تھا کہ ساس کبھی ماں اوربہو بیٹی نہیں بن سکتی لیکن ابتدا میں ہی یہ پیچیدہ اطوار اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ شروع میں تو ساس کو بہوؤں پر نثار ہوتے دیکھا اور سنا تھا بعد میں کچھ بھی ہو لیکن ابتدائی زمانہ پر بہو کے لیے پیار بھرا ہی ہوتا ہے وہ بھی اس گھر کی اکلوتی بہو بن کر آئی تھی ۔ کچھ الگ معاملات اور رویے کی خواہش مند تھی وہ پر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔

ساس زیادہ تر کمرے میں ہی بند رہتیں اور وہ کچن لاؤنج ' کمرے ڈرائنگ روم میں بولائی بولائی پھرتی۔ اتنی خاموشی کی عادت نہیں تھی' دل چاہتا کہ کوئی بات کرنے والا ہو اب یہ اس کا گھر تھا وہ اس کے تمام معاملات میں بولنا چاہتی تھی' سمجھنا چاہتی تھی کچھ گھریلو امور پورے خلوص کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی پر وہ اس کے ساتھ بات ہی بہت کم کیا کرتی تھیں تو وہ

اپنی خواہشات کیا بتاتی' ابھی تک تو انہوں نے کچن کے امور سے اسے انہوں نے دور رکھا ہوا تھا۔ جب طرح طرح کی ڈشز کھانے کے ٹائم ٹیبل پر رکھا کرتیں تو اسے عجیب طرح کی شرمندگی آن گھیرتی۔ ایک دن اس سے رہا نہ گیا جب وہ گرم گرم چکن رائس کی ٹرے اس کے سامنے رکھ رہی تھیں۔

"امی۔۔۔۔۔۔۔ آپ مجھے بھی کچھ کرنے دیا کریں' بہت عجیب سا لگتا ہے جب آپ کوکنگ کرتی ہیں' میں آپ جیسا لذیز اور ذائقے دار تو نہیں پکا سکتی لیکن آپ کی مدد تو کر ہی سکتی ہوں اس طرح مجھے بھی پکانا آ جاۓ گا آپ جیسا۔" بہت مٹھاس بھرے لہجے میں وہ گویا ہوئی' جوابا بہت عجیب سی اجنبی نظروں کا سامنا اسے کرنا پڑا جو اسے تذبذب سے ہمکنار کرتا ہوا اس کی ہمت توڑنے لگا۔

" آپ نے تو ابھی تک کھیر میں بھی ہاتھ نہیں ڈلوایا ہے' ایسا برتاؤ تو مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ میں اس گھر کی فرد ہوں۔"