SIZE
1 / 12

اس گھر میں دلہن بن کے اۓ اسے ہفتہ ہوچلا تھا اب تو گھر کے اکا دکا مہمان بھی رخصت ہو گئے تھے۔ بڑی نند رات کو کینیڈا کے لیے فلائی کر گئی تھی اور دونوں چھوٹی نندیں بھی اپنے اپنی سسرال اپنے تحفہ تحائف بمعہ نیگ خوشی خوشی سدھار چکی تھیں۔

گھر کی فضا میں ٹھہراؤ آ چکا تھا اور اسے قدرے بے رونقی محسوس ہو رہی تھی۔ ناشتے کی میز پرگئی تو ساس صاحبہ اپنی اولین روز کی سرد مہری سمیت طرح طرح کے لوازمات ٹیبل پرلگا رہی تھی۔ ناشتے کی میز پرگئی تو ساس صاحبہ اپنی اولین روز کی سرد مہری سمیت طرح طرح کے لوازمات ٹیبل پرلگا رہی تھی۔ وہ سلام کر کے زوار کے سامنے بیٹھ گئی جو پہلے سے ناشتے کی طلب میں وہاں آ بیٹھا تھا ' بھوک کا کچا جو تھا۔

" کتنا تکلف کر لیا آپ نے امی جان! ہم تین بندے اتنا کچھ کہاں کھا پائیں گے۔" اس نے نہاری کی ڈش اپنے سامنے رکھی طرح طرح کی خوشبوئیں اس کی خوش مزاجی کو عروج تک پہنچا رہی تھیں۔

" دلہن تکلفات تو لازمی ہیں ' بہوؤں کے لیے جتنا بھی کر لو کم ہی ہوتا ہے۔" برفیلے لہجے سمیت بہت عجیب سا جملہ سماعت میں اترا' اس نے نظریں اٹھا کر ان کے سپاٹ چہرے پر ایک نظر ڈالی۔ وہ جوس کا جگ رکھ رہی تھیں' منتظر تھی کہ وہ بیٹھیں تو ناشتہ شروع کرے۔ زوار تو پورا پورا انصاف کر رہا تھا وہ کمرے کی طرف مڑ گئی تھیں۔

" سنیں۔۔۔۔۔" اس نے مخاطب کیا۔

" امی کمرے میں جاری ہیں تاشتہ نہیں کریں گی؟" اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ براہ راست ان سے پوچھے اس لیے زوار کا سہارا لیا اس نے پکارا۔

" امی۔۔۔۔۔۔" وہ جاتے جاتے بغیر مڑے رکیں۔

" آپ ناشتا نہیں کریں گی' کمرے میں کیوں جا رہی ہیں؟"

"میں کمرے میں کروں گی' تم لوگ کرو آرام سے ہنسی خوشی ۔" ایک اور سہلا کر زخم لگانے والا جملہ سماعت سے ٹکرایا۔ زوار نے اس کے پھیکے پڑتے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر قدرے معاملے کو سنبھالنا چاہا۔

" تم ناشتہ کرو ' امی کی طبعیت جب نارمل نہیں ہوتی تو وہ کھانے پینے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں' تھوڑی دیر بعد جب سیٹ ہوں گی تو خود ناشتا کر لیں۔