SIZE
3 / 12

" بہوؤیں مہمان ہی ہوتی ہیں ' نہ سمجھا جاۓ تو بن جاتی ہیں اس لیے بہتر ہے کہ میں اپنی حد میں رہوں۔" انہیں سمجھنے میں وہ پوری آنکھیں وا کیے ان کے لہجے اور جملے کی چبھن کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

کہاں اس سے غلطی ہو گئی تھی کچھ سمجھ میں نہ آیا جب ابتدائیہ اتنا سنگین ہے تو انتہا خدا جانے کیا ہوتی۔ لوگ تو بڑے سے برا قصور کر کے دندناتے ہیں' وہ بغیر گناہ کے مصلوب ہورہی تھی۔ یہ نہیں کہ پہلے کسی بہوکی تجربہ کاریوں معاملات کا شکار وہ رہی ہوں جب وہ ہی پہلی بیوی تھی اورآخری بھی۔

کیا ان کی دونوں بیٹیاں بھی اسی سلوک کا شکار ہوں گی کیونکہ انہیں بھی تو کسی کی بہو ہونے کا شرف حاصل ہے وہ تلخ گھونٹ بھر کر رہ گئی۔

یہ نہیں کہ وہ اس کے معاملات میں مداخلت کرتی تھیں وہ جو چاہتی پہنتی' کھاتی پیتی' اپنی مرضی سے سوتی جاگتی جہاں چاہتی گھومتی پھرتی۔ کبھی روایتی ساسوں کی طرح اس کے فعل پر ناقدانہ نگاہ انہوں نے نہیں ڈالی' کوئی روک ٹوک نہیں کیا۔ یہ افعال بھی تو قابل تشویش تھے کہ وہ اعتراض کا حق رکھتے ہوئے بھی اجنبی بن جاتیں۔ زوار سے ذکر کرتی تو وہ خاموش ہوجاتا ' کبھی ہنس کے ٹال دیتا۔

" ارے اچھا ہے نا کہ تم ان کی نکتہ چینیوں کا شکار نہیں ہوتیں ورنہ ساسیں تو اعتراضات سے مار مار کر زندہ کرتی ہیں اور زندہ کر کے مارتی ہیں بہوؤں کو۔" اس نے خشمگیں نگاہوں سے گھورا۔

اہ اطمینان بخش رویہ نہیں ہے' طوفان کا پیش خیمہ ہے جو اٹھے گا تو بہت کچھ برباد کر ڈالے گا۔ اس کا اٹل رویہ دیکھ کر بھی وہ خاموش رہا۔ اس روز وہ چھوٹی نند کی شادی کا البم اٹھاۓ ساری تصاویر دیکھ رہی تھی' زوار پاس ہی لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا۔ اس کی دونوں نندیں بہت خوب صورت تھیں' کینیڈا والی زیادہ خوش مزاج تھی اور چھوٹی کچھ دبو قسم کی کم گو لڑکی تھی۔ ایک سال قبل اس کی شادی ہوئی تھی' اس لیے سسرال والوں کے مزاج کے مطابق چلتی اور آنا جانا ذرا کم ہی ہوتا۔ اچانک دلہن کے ساتھ مسلسل ایک گریس فل خاتون کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی جب کلوز تصویر پر نگاہ پڑی۔

" خالہ۔۔۔۔۔۔ خالہ خالی ہوں گی تو بتاؤں گا نا۔" اس کی نگاہیں مسلسل کام پر مرکوز تھیں'۔

"تو پھر یہ خوب صورت سی خاتون کون ہیں؟ اس نے البم آگے کی۔ یہ امی کی ہم شکل کون ہیں پھر؟ "

" حیرت ہے تم پر بھی۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے ہنسا۔”بھئی یہ امی ہی ہیں' شکر ہے ان کے سامنے تم نے ان معرکتہ الا خیالات کا اظہار نہیں کیا ورنہ وہ جانے کیا سوچتیں۔" اس نے انکھیں نکالیں۔

" ہاں یہ تو سہی کہا آپ نے ان کی سوچوں پر تو کسی کا پہرا نہیں جانے کیا کیا سوچتی رہتی ہیں بہرحال یہ بات قابل غور ہے کہ ایک سال پہلے اور اب والی امی میں بہت فرق ہے اور تم خود غور کرو' کہاں یہ خوش لباسی' آرائش' چہرے کی تازگی اور کہاں اب سنجیدہ اور سپاٹ چہرے والی خاتون ' لگ رہا ہے کہ ایک سال بعد کی نہیں' دس پندرہ سال آگے کی ہیں امی جان کی حالت اور تو اور ہماری شادی پر بھی کیسے روکھے پھیکے انداز میں انہوں نے شرکت کی ہے جیسے بیٹی وداع کر رہی ہوں' بیٹے کا سہرا نہیں سجا رہیں۔" اجیب تذبذب والی سچوئشن تھی۔