SIZE
5 / 9

گود میں سر گھسیڑے مشو بے خبر پڑا تھا . اسکی کھلی انگلیوں سے آدھ کھایا بسکٹ نکل کر پیروں میں جا پڑا تھا .

اس نے بسکٹ اٹھایا ، چوما اور ریپر میں رکھ لیا .گھر کے گملوں کی مٹی میں ڈالنے کے لئے کہ اس طرح رزق بے حرمتی سے بچ جاتا ہے اور خود سوئے ہوئے مشائم کے گال تھپتھپانے لگی .

امی کا گھر بھی صرف تب تک شادمانی کا مرکز تھا جب تک اسکی کزن پلس دوست ثمرہ نے اسکی بھاوج کا روپ نہیں دھارا تھا .

کم از کم اس نئے رشتے میں ڈھالنے کے بعد ثمرہ کے اندر اس سسرالی رشتے کی وجہ سے راتوں رات پنپ جانے والا تیکھا پن ، اسے کسی جادوگرنی کے روپ جیسا ہی لگتا تھا . اصل روپ ..... جو جادوگرنی کسی شہزادی کو پٹا کر مقصد حاصل کر لینے کے بعد دھارتی ہے .

سمرا جو اسکی خالہ زاد بہن تھی ... نہ جھگڑالو تھی اور نہ بد مزاج .... نہ پہلے تھی نہ شادی کے بعد .... ہاں مگر اب اس کے مزاج میں جو تیکھا پن کبھی ، کبھی جھلکتا تھا وہ اریبہ کو کبھی الجھن اور کبھی ہلکے سے دکھ سے دوچار کر جاتا تھا .

" میں کتنی بے ضرر نند ہوں . نہ میں نے کبھی اس پر طنز کیا نہ کوئی اور بات ، نہ فضول کی توقعا ت وابستہ کیں اور یہ .... پتا نہیں کیوں مجھ سے خار کھانے لگی ہے ." اس وقت بھی اسے اپنے بنے ٹھنے سیڑھیاں اترتے دیکھ کر لاونج میں داخل ہوتے ہوئے اریبہ دھک سے رہ گئی .

ثمرہ یقیناّ اپنے میکے جا رہی تھی .

" اوہ تم ! اریبہ ...."اسے اتے دیکھ کر جیسے اریبہ اسی طرح وہ خود بھی اریبہ کو دیکھ کر لمحے بھر کو فق ہوئی پھر سنبھل گئی .

اس میں اور اریبہ کی حیثیت میں بہت فرق تھا . اس گھر میں اب اس کی ماں کا نہیں ثمرہ کا راج چلتا تھا ... اور یہی راجدھانی کی ملکاؤں والی مخصوص سی بے نیازی اس وقت بھی اس کے چہرے پر در آئی.

" آؤ بیٹھو ، رک کیوں گئی ."

اریبہ نے دیکھا ... اس کے چہرے پر خیر مقدمی مسکراہٹ کی بجاۓ کسی کچہری کی سماعت جیسی سنجیدگی تھی اور وہ منصف بنی بس فیصلہ سنانے ہی والی تھی .

اریبہ نے اپنے اعصاب شل ہوتے محسوس کیے.

" اف ! کس قدر گرمی ہے آج ...."

اس نے چادر سر سے اتارتے ہوئے یونہی ....بے تکا تبصرہ کیا . ثمرہ نے جواب دینے کی بجاۓ کچن میں مصروف عظمت کو آواز دی .