SIZE
1 / 12

ج کا دن بہت منحوس تھا، یہی کوئی صبح کے آٹھ بجے کاکا سیڑھیوں سے گر کر ناک زخمی کر بیٹھا، حالانکہ بتولاں بی بی نے کہا بھی

تھا کہ منجی (چارپائی) پر بستر رکھ کر سیڑھیوں نہ اتر، گر گیا تو ہڈی ترخ جاتے گی. شکر ہے کہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری نہیں ہوئی.

بات ناک زخمی ہونے پر ہی ٹل گئی. ویسے خربوزے جیسے گول چہرے پر گیند نما سوجی ہوئی سرخ ناک خوب پھب رہی تھی.

ثریا اور نازی نے تو خوب قہقہے لگاتے جس پر بتولاں بی بی نے آگ بگولہ ہوکر لعنتیں بھی خوب ہی ڈالیں اور اطلاع دی کہ دنیا میں ایسی سنگ

دل بہنیں اور کہیں نہیں پائی جاتیں.

اچھا تو صبح آٹھ بجے کا واقعہ تھا دوپہر برا بجے جب بہو بیگم نور جہاں صاحبہ جنہیں بتولاں بی بی نے فضول جہاں کا خطاب عطا کر رکھا تھا.

اچانک کرنٹ کھا کر نیچے بیہوش ہو گئیں.

"اے ہاے! آج تو میں نے اسے ساگ پکانے کو کہا تھا. آدھ تو یہ کاٹ بھی چکی تھیں. اب کون پکاتے گا؟ منحوس ماری، مرن جوگی تو آج سارا دن

بستر سمبھالے گی. ننھی سی جان کیسے کیسے روگ. ہک ہا! ساگ کا سودا بھی نصیب میں نہیں".

دن کے ایک بجے جب ثریا ماں سے پوچ رہی تھی. "اماں اگر بھابھی آج کرنٹ لگنے سے مر جاتی تو پھر ہم رشید بھائی کی دوسری شادی چاچے

اصغر کی شمو سے کرتے یا خالہ اصغری کی صفو ٹھیک رہتی"؟ اماں کے جواب سے پہلے دروازے کی گھنٹی بج اٹھی اور پوسٹ مین ایک لفافہ دے

کر رخصت ہوا.

لفافہ کھولتے ہی کارڈ پر نظر پڑی. عبارت ثریا نے پڑھ کر سنا دی. یہ شادی خانہ آبادی کا کارڈ تھا. شادی بھی کس کی پھوپھی انوری کی بیٹی تارو کی.

"آے ہاے! آج کا دن ہی منحوس ہے". تب ہی بتولاں بی بی نے دانت پیس کر تاریخی جملہ بولا.

"دفع دور، ہم نے نہیں جانا تارو کی شادی پر". ناز نے بھی ناک چڑھا کر کہا. کا کا بھی اپنی سوجی ناک پر اپنی بیوی نور جہاں کا دوپٹہ رکھے

باہر آگیا.

"تارو کی شادی ہے".

"آہو ہے ناں! تیرے کیوں اتھرو(آنسو) نکل آے ہیں". اماں گرجی.

"تکلیف ہے اماں".

"ناس پیٹے! بیوی تیری زندہ سلامت ہے، باپ تو بنانے جا رہا ہے. ابھی بھی تارو کی شادی سے تجھے تکلیف ہو رہی ہے.

"اوہو! اماں ناک میں تکلیف ہے