SIZE
4 / 7

ملاحظہ کرنے کا کام میں نجانے کتنے دن تک کرتا رہا اور معصومہ سے کچھ بھی نہ کہ سکا حتاکہ میرے کولیگ نے

پھر سے مجھ سے معصومہ کی بابت استفسار کیا.

"تم تو بہت بزدل ہو بشر!" وہ بولا تھا. ایک لڑکی سے اظھار محبت کرنا بھلا ایسا بھی کیا مشکل کم ہے؟

مجھے کیا کرنا چاہیے؟

"یوں کرو" وہ سوچتے هوئے بولا. اسکے لئے کوئی تحفہ خرید لو....... جو عورت کے لئے اٹرکشین رکھتا ہے. اسے وہ

تحفہ دو. وہ یقینا وجہ جاننا چاہے گی. بس پھر کیا بات ہے، بات سے بات نکلتی چلی جاتے گی. اسے تمہارے جذبات کی

شدت کا اندازہ ہوگا. اس طرح اسکے دل میں تمہارے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگا. عورت کے دل میں اگر ایک بار کسی مرد

کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو جاتے تو پھر اسے حاصل کرنا زیدہ مشکل نہیں ہوتا".

میں نے باسط کا شکریہ ادا کیا اور واپس لائبریری چلا آیا.

اب میرا زیدہ وقت یہ سوچنے میں صرف ہونے لگا کہ معصومہ کو تحفے میں کیا چیز دی جاتے. یہ میری جانب سے اسکے لئے

محبت کا پہلا تحفہ ہوتا. ایک یادگار. یہ یقینا خاص ہونا چاہیے تھا. میری الجھن بڑھنے لگی.

ایک روز جب میں پریشانی میں اسے تکے جا رہا تھا اسنے جھنجھلا کر اپنی کتاب بینڈ کی اور غصیلی نگاہ مجھ پر ڈال کر اٹھ

کھڑی ہوئی.

لمحہ بھر کے لی میرے دل کی دھڑکن تھام گئی.وہ نجانے کیا کرنے جا رہی تھی؟ کیا وہ مجھ سے باز پرس کرنے کا اردہ رکھتی تھی؟

یا وہ لائبریری کی انتظامیہ کو میرے رویے سے آگاہ کرنے جا رہی تھی؟ وہ چند لمحے غصے اور بے بسی کے ملے جلے جذبات

کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی، پھر اپنی کتابیں سمیٹ کر مرکزی دروازے کی طرف چل دی.

میرا دل تاسف سے بھر گیا. مجھے یقینا ایسا نہیں کرنا چاہیے،میرا رویہ بہت فضول اور احمقانہ ہے. کسی بھی سیدھی اور سیدھی سادی

اور شریف لڑکی کو پریشان کرنے کا یہ بہت گھٹیا اور آسان طریقہ ہے.

میرے تصور کے پردے پر وہ دو ہاتھ چمکنے لگے. کتابیں سمیٹتے هوئے ہاتھ. اسکے ہاتھ بلاشبہ خوبصورت تھے. سفید سفید

خوبصورت صاف ستھرے اور بھری بھری کلائیوں والے ہاتھ.

ان ہاتھوں میں رنگ برنگی چوڑیاں سجانے کا ارمان ایک بار پھر پوری شدت سے سے دل میں جاگا. میں لائبریری سے نکل کر

بازار چلا گیا. مختلف دکانوں کی خاک چھانتا، چیزیں دیکھتا پسند کرتا اور رد کرتا آگے چلا جاتا. پھر ایک دم ایک دکان کے شو

کیس کے سامنے رک گیا. یہ ایک صراف کی دکان تھی اور میری توجہ شو کیس میں سجے ایک جڑاؤ کنگن نے کھینچ لی. وہ

بہت خوبصورت کنگن تھا. میرے تصور کے پردے پر بھری بھری کلائیاں لہرائیں اور اس کنگن کو معصومہ کی کلائی میں

سجا دینے کی خواھش میرا وجود بھر دیا.

میں دکان میں گھس گیا اور اس کے مالک سے کنگن کی بابت استفسار کیا.

"بائیس ہزار" اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھتے هوئے اسکی قیمت بتائی تھی. میں سر جھکا کر دکان سے نکل آیا.