SIZE
5 / 29

"ٹھیک ہے تم سے اب سیدھی طرح ہی رابطہ ہوگا". اس نے سرد لہجے میں کہ کر کال کاٹ دی، تزین پریشان ہوگئی.

مگر یہ پریشانی عبید کی طرف سے نہیں تھی بلکے ابا کی طرف سے تھی، وہ اس رشتے کی وجہ سے بہت خوش تھے اور اب شاید کچھ

غلط ہونے والا تھا. وہ سر تھام کر بیٹھ گئی. اسے یقین تھا عبید جیسے آزاد خیال بندے کو اسکی صاف گوئی کچھ خاص پسند نہ آئی ہوگی.

اور اب وہ یقینا تزین جیسی دقیا نوسی لڑکی سے رشتہ ختم کر دے گا.

مگر یہ اس سے ہفتہ بھر بعد کی بات ہے جب امی نے اس سے پوچھا "عبید کا فون نہیں آیا".

وہ ایک آفس فائل چیک کر کے صوفی سے کمر سیدھی کر کے بیٹھی تھی کہ چونک کر انکو دیکھا.

"فون آتے تو آپکو، مجھے کیوں آنے لگا،" میں سنجیدگی سے بولی تو وہ مسکائی.

"بھئی منگیتر ہے تمہارا، تمہیں فون یوں نہیں کر سکتا."

"مانیٹر ہونا کونسا اعزاز کی بات ہے جو ایسی فضولیات کو اپنایا جاتے. اس نے بہت عام سے انداز میں کہا. تب امی نے کہا

"انکے ہاں عام سی ہی بات ہے".

"مگر ہمارے ہاں نہیں".

"لیکن تم کو رخصت ہوکر انہی کے گھر جانا ہے". امی نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی.

"درست ہے لیکن جب تک یہاں ہوں وہاں کے اصول نہیں اپنا سکتی". وہ قطعیت سے بولی تو امی نے اسکو سمجھانے کی کوشش کی.

"کچھ حالات کا بھی تقاضہ ہوتا ہے تانی"

"جب حالات آئیں گے دیخے جایئں گے. وہ لا پرواہی سے بولی پھر قدرے توقف کے بعد بولی.

"میں تو پہلے ہی کہ رہی تھی ان لوگوں کے اور ہمارے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے، ہمارے ہاں کہاں پسند کیا جاتا ہے لڑکیوں کا

اپنے منگیتروں سے بات کرنا. ثمرین آپی کو تو نہ ملی ایسی آزادی". اس نے اپنی بڑی شادی شدہ بہن کی مثال دی، امی بھی اسکے رویے

پر حیران ہو رہیں تھیں.

تب بات اور تھی، خالد ہمارا ہم پلہ تھا یہاں بات اور ہے، امی نے اتنا کہا تو وہ ناراض ہوگئی.

"امی وہ دولت مند ہوں گے تو اپنے گھر میں ہم کیوں انکے رعب میں آئیں ".

تمہارے ابو نے اجازت دی ہے، امی نے اسکو بتایا تو تزین کو لگا اسکے سارے دلائل اڑن چھو ہوگئے.

"ابو نے......" اس نے بے یقینی سے کہا اور امی نے اثبات میں سر ہلا دیا.

"بہت آزاد خیال ہوگئے ہیب ابو..... ابو کو تو ایسے

عبید نے خود ان سے بات کی تھی، تو ہم نے بھی سوچا کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں آخر شادی تو اسی سے ہونی ہے تھوڑا ایک دوسرے

کو سمجھ لو گے.

امی نے بہت آرام سے کہا.

لیکن میں شادی سے پہلے یک کو بلکل ضروری نہیں سمجھتی.......اور اب پتا نہیں کب اتنے آزاد خیال ہوگئے؟ امی کا دیکھ کر طنز سے پوچھا.

"مت بھولو تمہارے معاملے میں انہوں نے ہمیشہ نرمی برتی ہے، تمہاری کو ایجوکیشن میں پڑھائی اور اب مردوں میں جاب بھی اس نرمی کی ہی

مثالیں ہیں".

اسے اعتراض تھا مگر انکو قائل کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ بات اب بہت آگے تک جا چکی تھی. کیوں کہ اگر ابو نے خود اسکو کہا

تو وہ کچھ نہ کہ سکے گی.

"اس سلسلے میں اسکو خود سٹینڈ لینا پڑے گا." اس نے دل ہی دل میں ارادہ کیا.

.....................................

اور سناؤ کیا حال ہیں منگیتر صاحب کے؟ امی کے کچن سے جاتے ہی اعیان نے خوش دلی سے بولا تو اس نے گھور کے دیکھا. بدلے میں تم بھی

مجھ سے میری منگیتر کا پوچ سکتی ہو". وہ جلدی سے بولا.

"حال تو تھک ہے مگر چال چلن ٹھیک نہیں". تزین کے جواب پر اس نے چونک کر دیکھا.