SIZE
2 / 7

وہ حسین تھی تو کم یہ بھی نہ تھا . وہ محل میں رہتی تھی تو وہ اپنے زور بازو سے ایک گھر بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا . وہ کافر ادا تھی تو یہ بھی لفظوں سے اصنام گری کیا کرتا تھا ' دولت اس کے گھر کی باندی تھی تو لفظوں کے جگنو اس کے گرد ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے . اس کے دربانوں کے ہاتھوں میں تیز دھار تلواریں تھیں تو اس کے پاس قلم کا جادو تھا . اس کے پاس ہیرے موتی جواہرات تھے تو اس کے پاس سچے جذبات کے بیش بہا جواہر تھے .

اس نے اپنا حال کہنے کا فیصلہ کیا اور اس کا ذریعہ صدیوں سے محبت کرنے والوں کے بیچ رائج نامہ محبت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا تھا .چاہتا تو تھا کہ اطلس و کم خواب پر مشک و زعفران سے اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن یہ اشیا اسے میسر نہ تھیں نہ رائج . تلاش و بسیار کے بعد ایک خوبصورت ست رنگے کاغذ پر ایک خوش رنگ قلم سے کہ جس کی روشنائی میں افشاں گھلی ہوئی تھی ' اس نے اپنی داستان عشق کا آغاز و اظہار کرنا چاہا. پہلے تو اس نے سوچا کہ اس کے حسن کی مدح سرائی کرے اور اپنے وحشت و جنوں کا قصہ کہے ، اشعار کہے ، قصیدے لکھے لیکن پھر زبان غیر سے شرح آرزو کرنے کا خیال ترک کیا . بڑے بڑے لفظوں کے پل تعمیر کرنے سے گریز کیا کہ اس ماہ پارہ ، سیمیں بدن کو دشواری نہ ہو اور چند سادہ الفاظ میں اپنی محبت و الفت کا گہرا اظہار کیا . کاغذ کو خوشبو میں بسایا اور مکتوب ' محبوب کو روانہ کر دیا .

جب اس حسینہ بے پرواہ کو وہ محبت نامہ موصول ہوا تو وہ اپنی خوبصورت آرام گاہ میں آرام کرسی پر نیم دراز تھی . گیسوئے تابدار فرش کو چھو رہے تھے اور ایک خادمہ کھڑی اس زلف کے پیچ و خم سنوار رہی تھی اور خود وہ شیریں سخن ٹیلی فون کا ریسیور کان سے لگاۓ کسی سے محو گفتگو تھی . جب ایک خادم نے اسے وہ مکتوب لا کر دیا تو وہ اس داخل در معقولات پر سخت خفا ہوئی . سونے پی سہاگہ کہ وہ رنگین لفافہ جسے اس نے بڑے پر غرور انداز میں الٹ پلٹ کر دیکھا اور ایک طرف ڈال دیا .

" بھلا آج کل کے ٹیلی فونک دور میں یہ خط وغیرہ لکھے جاتے ہیں ' ہونہہ ! حیرت ہے ' آج بھی ایسے فارغ لوگ موجود ہیں . بھلا یہ بھی خط لکھنے یا پڑھنے کا زمانہ ہے ؟ نمبر گھماؤ ،بات کرو اور بس ."

اور جب اسے پتا چلا کہ اس پتھر دل نے اس کے پیار کے پہلے خط کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ' نہایت رنجیدہ ہوا . اسے اس سے اس قدر کج روی کی امید نہ تھی . " ایک بار پڑھ تو لیا ہوتا ." اس نے آزردگی سے سوچا .

کچھ دن اسی افسردگی میں گزر گئے ، مگر یوں پہلے ہی مرحلے پر ٹوٹ جانا ' بھی تو سرشت عشق نہ تھی . اس نے خود کو دوبارہ حوصلہ دلایا اور ایک بار پھر اسی کانٹوں بھری رہ گزر پر چلنے پر تیار ہو گیا .مگر اس بار حالات سخت تھے . اسے وہ آلہ حاصل کرنا تھا جس کے بل پر وہ اس حسن کو اس کے تغافل سے بیدار کر سکے . باہر اس نے دیکھا کہ ایسی جگہیں جا بجا موجود تھیں ' جہاں سے ٹیلی فون کیا جا سکتا تھا .مگر اسے یوں سر بازار اپنی محبت کا تماشا لگانا مقصود نہ تھا .نہ ہی وہ اپنے محبوب کی بدنامی چاہتا تھا ' سو اس نے دن رات محنت شروع کی ' بچت کی ' درخواست دی ' دفاتر کے چکر لگاۓاور آخر کار اپنا فون حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا . وہ بے حد خوش تھا .اسے اپنے سخن پر پورا بھروسہ تھا .یقیناّ وہ ایسی گفتگو کرے گا کہ اس ظالم پر اثر کرے گی . دھڑکتے دل اور کانپتی انگلیوں کو سنبھالتے ہوئے اس نے نمبر ملایا مگر نمبر مصروف تھا .