SIZE
1 / 5

اگر خاندان میں ایک بد دماغ اور خود سر لڑکی کے طور پر مشہور ہیں تو کبھی ، کبھی یہ بات آپ کے حق میں چلی جاتی ہے کیونکہ جب شادی ہال میں دلہن بن کر آپ اکڑ جاتی ہیں اور نکاح نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتی ہیں تو شادی ہال میں کھانے کے لئے جمع ہونے والے رشتے دار ، محلے والے ، دوست احباب سب یہی کہتے ہیں ....

" ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یہ لڑکی کچھ اسی قسم کی حرکت کرے گی ... ہماری سلامی خاک میں مل جاۓ گی اور کھانے کو بھی کچھ نہیں ملے گا ..." آپ کی بوڑھی والدہ کے دل میں جیسے اس بات کا خدشہ پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے اور وہ ہرگز دل پکڑ کر آپ کے پیر نہیں پڑتیں بلکہ خاموشی سے ایک طرف ہو جاتی ہیں ...

تو تماشا ختم ہونے کو ہوا ... جس کا باقاعدہ آغاز تب ہوا تھا جب یہ رشتہ آیا تھا اور بہت ساری باتوں کو نظر انداز کرنے کے باوجود مجھ سے ایک بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ صبح شام لڑکے کی والدہ اپنے بیٹے کی خوب صورتی کے قلابے ملاتی رہتی تھیں اور اکثر میں سنتی تھی کہ امی کو میری شکل صورت کو شادی تک اچھا کرنے اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے بارے میں معلومات باہم پہنچاتی رہتی ہیں .

میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں ... انٹرنیشنل ارگنائزیشن میں اچھے عہدے پر فائز ہوں .... سارا دن ہر قسم کے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوں کچھ میرے زیر اثر ہیں کچھ مجھ سے مرعوب اور کچھ پروفیشنل جیلسی رکھتے ہیں مگر میں اپنے ہونے والے شوہر سے بات نہیں کر سکتی .... میں یہ تو جانتی تھی کہ وہ کسی کمپنی میں جاب کرتا ہے مگر اسکا عہدہ اور تعلیم بتانے کی کسی نے زحمت نہیں کی تھی ... کیونکہ وہ بہت خوب صورت تھا اور یہی کافی تھا اور کیونکہ مشرقی لڑکیاں شرم و حیا کا پیکر ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں شرم کا دوسرا نام شاید بد عقلی اور گونگا ہونا ہے .... میں سب کچھ سہتی رہی .... میں مانتی ہوں کہ میں اپنے خاندان میں تمام بھائی بہنوں سے شکل صورت میں سب سے کم تھی ... شاید یہی بات امی کو میرے رشتوں سے انکار کی وجہ سمجھ آتی تھی کیونکہ امی پہلے کبھی اس طرح رشتوں کے لئے پریشان نہیں ہی تھیں .... اسی لئے ایک وقت مجھ پر ایسا بھی آ گیا کہ امی لڑکے کی صرف صورت اور تھوڑی بہت خاندنی بیک گراؤنڈ سے ہی متاثر ہونے لگی تھیں .... میری خوشی یہ نا خوشی کا احساس کم سے کم کرنے لگی تھیں . میں خود کو اس قدر بوجھ محسوس کرنے لگی تھی کہ امی کی اس طرح کی بے چینی کے ہاتھوں ہتھیار ڈال چکی تھیں .... امی کے دل و دماغ پر میری کم شکلی اور ہونے والے داماد کی خوب صورتی کی ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ جب بھی وہ لوگ ہمارے گھر آتے امی کوشش کرتیں کے میں بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آ جاؤں کیونکہ وہاں سے تیار ہونے پر آپکی اصل شکل و رنگ کا کچھ پتا نہیں چلتا ... میں نے ایک بار ان کی بات مانی دوسری بار .... تیسری بار میں نے سامنے جانے سے انکار کر دیا اور چوتھی بار یوں ہی پہنچ گئی .... یہ بات میری ہونے والی ساس صاحبہ کو پسند نہ آئی...انہوں نے بعد میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا . بار ، بار امی کو فون آنے لگے .