SIZE
3 / 11

" اگر بوا بیگم کو بھی کچھ ہو گیا تو ..." اس سوچ اور ڈر نے جیسے اس کے پورے جسم سے جان نچوڑ کر رکھ دی . بارہ گھنٹے کی صبر آزما بے ہوشی کے بعد جیسے ہی انھیں ہوش آیا اس کی جان میں جان آئی ورنہ وہ متوحش نظروں سے کاریڈور میں ٹہلتی مسلسل ایک ہی دعا کا ورد کر رہی تھی . " الله جی بوا کو کچھ نہ ہو ." ان کے کمزور واجد کا سہارا بھی اس کے لئے بڑی نعمت تھا . ان کے وجود کے ساۓ تلے چھپ کر ہی تو وہ زندگی کے دن گزار پا رہی تھی . ورنہ مما ، پاپا اور ہانی کے بعد اس کا زندہ رہنا نا ممکن ہو جاتا .

بوا بیگم کے اسپتال سے گھر آتے ہی وہ اپنا غم بھلاے ان کی تیمارداری میں مصروف ہو گئی . وہ اس وقت ایک ایسی ڈری سہمی بچی تھی جس کے ہاتھ میں زندگی کی مشکل و کٹھن رہ گزر پر چلنے کے لئے صرف بوا بیگم کا ہاتھ تھا . وہ ہراساں تھی اس خوف سے کہ کبھی جو بوا بیگم کا ہاتھ چھوٹ گیا تو وہ دنیا کے میلے میں ایسے گم ہو جاۓ گی کہ پھر شاید اپنی بھی نہ رہے . یہ ایک ایسا ڈر تھا جو کنڈلی مارے کسی اژدھے کی طرح پھن پھیلاۓ اس کے اندر چھپا بیٹھا تھا اور جس سے چاہ کر بھی وہ جان نہیں چھڑا پا رہی تھی .

" بوا آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا . پلیز آپ ایسا مت کیجئے گا ... آپ جانتی ہیں ناں کہ آپ کے سوا میرا کوئی نہیں ..." رات وہ ان کی ٹانگیں دباتے بھیگے لہجے میں کہہ رہی تھی اور بوا کی پر سوچ نظریں اس کے معصوم چہرے پر جمی نہ جانے کہاں سے کہاں پرواز کر رہی تھیں .

" فاری ذرا فون تو میرے پاس لاؤ ." یکلخت ان کے کہنے پر وہ تابعداری سے سر ہلاتے اٹھ کر فون سیٹ کی طرف بڑھ گئی .

" یہ ساتھ والی دراز میں نیلے کلر کی ڈائری ھے ، وہ بھی پکڑا دے اور میرا چشمہ بھی ." اس سے ڈائری پکڑتے ہی انہوں نے چشمہ لگایا اور نمبر ملانے سے پہلے ایک دفعہ پھر اسکی طرف متوجہ ہوئیں .

" اور اب تم میرے لئے چاۓ لے آؤ ."

" جی اچھا ...!" وہ حیران حیران سی باہر کی طرف بڑھی تھی مگر پھر جب چاۓ لے کر کمرے میں آئی تو انھیں کسی گہری سوچ میں مستغرق پایا .

" بوا ...." اس کے دو تین بار آوازیں دینے پر انہوں نے چونک کر اسکی طرف دیکھا تھا .

" یہ چاۓ لے لیں ."

" ہاں رکھ دو ، ابھی ضرورت نہیں ھے ."

" مگر ابھی تو ..." وہ کچھ کہنا ہی چاہتی جب وہ بولیں .

" پی لیتی ہوں بیٹا تم پریشان نہ ہو ." اس نے تعجب سے ان کے الجھے الجھے انداز کو دیکھا اور پھر ان کے قریب بیٹھتی ایک بار پھر سے ان کی ٹانگیں دبانے لگی .

دوسرے دن وہ لان میں بیٹھی تھی جب اس نے ایک گریس فل سی عورت کو گیٹ سے داخل ہو کر اپنی طرف آتے دیکھا . انکی شخصیت اتنی پر کشش تھی کہ وہ بے ساختہ اٹھ کھڑی ہوئی .

" السلام علیکم بیٹا ! مجھے فاخرہ بیگم سے ملنا ھے ." ان کے بولنے کا انداز ان سے بھی زیادہ پر کشش تھا وہ سراہے بغیر رہ نہ سکی .

"آئیے پلیز .... میں آپ کو بوا بیگم کے کمرے میں چھوڑ آؤں ."سلام کا جواب دیتے وہ انھیں ساتھ لئے بوا بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی .

" آپ فاریہ ارسلان ہیں ناں ؟" راستے میں وہ پوچھ رہی تھیں اس نے آہستہ سے سر اثبات میں ہلا دیا . اس نے اس عورت کی آنکھوں کو چمکتے دیکھا .