SIZE
3 / 9

" دو سال بعد بھابی۔۔۔ دو سال مطلب؟"

" اگلے سے اگلے سال ہو گا ٹسٹ۔۔۔"

" میری تو تین جماعتیں رہ جائیں گی بھابی۔"

" میں کیا کر سکتی ہوں۔ بس اب یہی ہوتا ہے یہاں۔"

عاصرہ پھر سے دو سال کے لمبے انتظار میں جا پڑی۔۔۔فرقان سے کہہ دیا پرنسپل نے انگلش میں کچھ سوال جواب کیے تھے ' عاصرہ نے ان کے جواب نہ دیے۔ انہوں نے کہا' فی الحال گھر میں پڑھاؤ اور عاصرہ سے کچھ نہ پوچھنا۔ اس کا دل چھوٹا ہو گا۔"

فرقان کتابیں لایا کہ عاصرہ گھر میں رہ کر پڑھو ۔ چند دن کے بعد عافیہ نے کتابیں اٹھا کر رکھ دیں کہ " چھوٹا جاذب پھاڑ دے گا جب اسکول جاؤ گی تو نکال لینا۔"

عافیہ آفس جاتی رہی ۔ وہ جاذب کو سنبھالتی ۔ اس کا فیڈر بناتی' اسے کھلاتی' بہلاتی اور تھک کر اس کے ساتھ ہی سو جاتی۔

اگلے سال حماد آ گیا۔ عاصرہ کے پاس اب دو بچے ہو گئے۔ عافیہ اپنے میکے والوں کے سامنے بڑے فخر سے کہتی۔

" میرے بچے میرے پاس نہیں آتے اور عاصرہ کے پاس سے نہیں جاتے کیر سے بہت پیار کرتی ہےان کی پھوپھو جانی ان سے۔۔۔ ہے کوئی عاصرہ جیسی پھوپھی کسی اور کے پاس۔۔۔

عاصرہ اپنی تعریف سن کر پھولی نہ سماتی۔۔۔ خاص کر شہری کھانے کھانے والوں اور ٹانگ پر ٹانگ جما کر بڑے صوفوں پر بیٹھنے والوں کے سامنے تو اسے لگتا کہ اس کی زندگی کا حاصل وصول ہو گیا۔

وہ اور بھاگ بھاگ کر جاذب اور حماد کے کام کرتی۔۔۔ ماسی آتی' گھر کی صفائی کر جاتی اور وہ دونوں بچوں کو دیکھتی۔

دو سال گزرے ۔ تین بھی گزر گئے ۔۔۔ درمیان میں جب جب وہ اسکول کا سوال کرتی بھابی کچھ اس طرح سے جواب دیتی۔

" عاصرہ! یہ سرکاری اسکولون کے استاد بہت مارتے ہیں۔۔۔ میری اماں کے ادھر ساتھ والی خالہ کی نواسی کے بازو کی ہڈی توڑ دی۔۔۔ یہ شہر ہے ناں یہاں یہ سب ہوتا ہے۔ کوئی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔"

" یہ جو اسکول ہوتے ہیں ناں گندی سندی زمینوں پر بناتے ہیں ۔۔۔۔ خاص کر قبرستانوں کی زمین پر۔۔۔ اور یہاں جنوں اور چریلوں کے ساۓ ہوتے ہیں۔۔۔ ابھی پچھلے ہفتے اخبار میں خبر آئی کہ ایک بچی کی لاش ملی اسکول کے باتھ روم سے ۔۔۔ ایک بچی چھت سے گر کر اپنی دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی۔۔۔ ایک کا اندھیرے میں کسی بلا نے گلا دبا دیا۔۔۔ تڑپ تڑپ کر بچی مر گئی۔۔۔ اگلے دن لاش اسکول کے بند گٹر سے ملی۔۔۔۔ میرا تو دل کانپ جاتا ہے یہ سوچ کر کے تو بھی اسکول جاۓ گی۔۔۔ میرے بس میں ہو تو کبھی اپنی پیاری عاصرہ کو اسکول نہ جانے دوں۔ یہ شہروں کے اسکول ' ان سے تو موت اچھی ہے۔"

بے چاری عاصرہ سہم سہم جاتی۔

فرقان کو یاد آتا تو کہتا۔

" عاصی! تو کیوں نہیں جاتی اسکول۔۔۔ کتنی بار کہہ چکا ہوں' اپنی بھابی کے ساتھ جا اور داخلہ لے لے۔۔۔"

وہ صاف کہنے لگی۔

" مجھے نہیں جانا بھائی جان! اسکول۔۔۔ نہیں پڑھنا مجھے۔"

نہ وہ گئی نہ وہ پڑھی۔۔۔ وہ بڑی ہوتی گئی۔۔۔ گھر اور بچے سنبھالتی رہی۔۔۔ تین بھتیجوں کی پھپھو جان بن گئی۔۔۔ چوبیس سال کی ہو گئی۔۔۔ فرقان قطر چلا گیا۔۔۔ عافیہ نے ہی بھیجا۔۔۔ اسے بڑا گھر چاہیے تھا ۔۔۔ گاڑی لینی تھی اسے۔

نفس کی کلائی تھامے کاش کبھی تو انسان ذرا کی زرا رُک کر دیکھے کہ وہ نفس کے ساتھ کس راستے پر بھاگتا چلا جا رہا ہے۔