Pages 5
Views1145
SIZE
4 / 5

اماں بات ختم کر کے چپ ہو گئیں۔ بابا نہ جانے کیا سوچ رہے تھے وہ بھی چپ چاپ دروازے سے ہٹ گئی.

"اماں بابا نے کیا سوچا؟"

اماں آزر کے آنے سے پہلے ہی اس کی خاطر مدارات کی تیاری میں لگی ہوئی تھیں کہ اچانک جہاں آرا نے ان کو پیچھے سے پکارا۔ انہوں نے مڑ کر ایک نظر اس کے پریشان چہرے پر پر ڈالی اور دوبارہ کباب بنانے لگیں۔

" یہ اہم نہیں بیٹا کہ بابا نے کیا فیصلہ کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ تم نے کیا فیصلہ کیا۔" انہوں نے کبابوں کی پلیٹ فریزر میں رکھی اورسنک میں ہاتھ دھونے لگیں۔ جہاں آرا شیلف سے ٹیک لگائے انہیں دیکھتی رہی۔ وہ ہاتھ دھو کر اس کے پاس چلی آئیں۔

" تمہیں یاد جہاں آرا! میں گھر کے کام کاج سے متعلق جب بھی تمہیں ڈانٹا کرتی تھی تم ہمیشہ بابا کو ڈھال بنا لیتی تھی۔ اگر اس وقت انہوں نے بھی تمہیں سمجھایا ہوتا یا مجھے سمجھانے دیا ہوتا تو آج تم یہ پریشانی نہ دیکھتیں۔ لیکن تمہیں پتہ ہے تم سے سب سے بڑی غلطی کیا ہوئی' تم نے چھوٹی سی بات کا ایشو بنا لیا اور ایشو جتنی جلدی کری ایٹ ہوتے ہیں اتنی ہی دیر لگتی ہے انہیں حل کرنے میں' اگر تم اسے معمولی بات سمجھ کراگنور کر دیتی تو آج سکون سے گھر بیٹھی ہوتی لیکن سچ کہوں تو ایسی چھوٹی چھوٹی بات کو ایشو بنانے میں میں تمہارے بابا کا بھی کردار ہے۔ تمہیں اب پہلے کی طرح ہر بات ان سے شیئر نہیں کرنی چاہیے بیٹا! تم اب ٹھنڈے دماغ سے اب پہلے خود سوچو اور اگر کسی مسئلے کا حل نہیں نکال سکو تو مجھ سے شیئر کرلو۔ مگر یوں چھوٹی سی بات پہ جھگڑ کر میکے چلے آنا یا ماں باپ کو دخل اندازی پر مجبور کرنا ٹھیک نہیں ہوتا بیٹا!"

انہوں نے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرا تھامتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا تو وہ رو دی۔ واقعی اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔

اور پھر وہ یس ی آخری غلطی تھی۔ اس دن جب بابا کو راضی کر کے وہ آزر کے ساتھ واپس چلی گئی تو دوبارہ کبھی اس نے اپنے گھر کی بات گھر سے باہر نہ نکالی تھی۔ جیسی بھی صورت حال ہوتی' وہ محبت اور ہمت سے ہینڈل کر لیتی۔ اپنی ماں کی ایک نصیحت باندھ لینے سے اس کی زندگی آسان تر ہوتی چلی گئی اور اس کا گھر خوشیوں کا گہوارا بن گیا۔