Pages 5
Views1133
SIZE
3 / 5

"بس۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔ ردا! تم سب سامان پیک کرو اپنا۔ اب تم یس گھر میں تب ہی قدم رکھو گی جب اس گھر کو تمھاری قدر ھو گی۔" گلزار بیگم کی بات پر داور ایک غصیلی نگاہ ردا پہ ڈالتا باہر نکل گیا۔ اور پھر جہاں آرا کے لاکھ روکنے کے باوجود وہ دونوں نہیں رکی تھیں۔

وہ نڈھال سی برآمدے میں پڑی چارپائی پہ آ کر سر تھامے بیٹھ گئیں۔ ڈرائنگ روم سے نکلتے داور نے ایک نظر اپنی ماں پر ڈالی اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا.

"امی دروازہ بند کر لیں میں شام تک آ جاؤں گا".وہ کہہ کر باہر چلا گیا مگر وہ وہاں ہوتیں تو سنتیں.

" آپ بات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے."اماں نے نے تھکن زدہ لہجے میں کہا تو وہ جو دروازے کے قریب سے گزر رہی تھی ٹٹھک کے رک گئی.

" بات کی نزاکت کو تم نہیں سمجھ رہی نہیں بیگم ! جہاں آرا میری اولاد ہے اس کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں وہ مجھ پر بھاری نہیں۔" بابا نے دو ٹوک لہجے میں کہا.

" میں مانتی ہوں وہ آپ کو بے حد عزیز ہے۔ آپ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر اس کا گھر برباد نہیں کر سکتے ناں۔" اماں کی بات پر جہاں بابا چونکے وہیں دروازے سے لگی جہاں آرا کا دل بھی کانپ گیا.

" ابھی اس کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور بجائے اسے اپنے گھر میں دیکھنے کے آپ اسے اپنے پاس رکھنے کا سوچ رہے ہیں۔" اماں بولتی رہیں۔ " بیٹیاں کسی پر بوجھ نہیں ہوتیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیٹیاں اچھی اپنے گھر میں ہی لگتی ہیں۔ میں مانتی ہوں کے اس کی ساس کو اتنا سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا مگر کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ جہاں آرا کے ابا اگر آپ مجھے اسے گھر گر ہستی سکھانے دیتے تو آج اسے ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا.ماں باپ کی سب سے بڑی غلطی یہی ہوتی ہے کہ بیٹیوں کو وداع تو کر دیتے ہیں مگر انہیں سمجھانا بھول جاتے ہیں کہ ان کا اصل گھر شادی کے بعد ان کا سسرال ہوتا ہے. چھوٹی موٹی لڑائیاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں۔ نو مہینے پیٹ میں پالنے والی ماں تو غصے میں کبھی ہاتھ بھی اٹھا لیتی ہے تو ساس کی ذرا سی گرمی پر اتنی آنا کیوں! اور میں جانتی ہوں کہ آزر بہت اچھا لڑکا ہے اس کے گھر والے بھی بہت اچھے ہیں۔ زرا سی رنجش کو دل کا میل نہ بنائیں۔ میں جہاں آرا سے بات کروں گی اور اس کی ساس سے بھی بات کروں گی دیکھئے گا سب ٹھیک ہو جائے گا.ابھی آزر کا فون آیا تھا لینے آئے گا جہاں آرا کو شام میں۔ آگے آپ کی مرضی۔"