SIZE
5 / 11

" ارے اماں ایسا نہ کریں؟" صبوحی نے کچھ کہنا چاہا مگر۔۔۔۔ اماں کے جاہ و جلال کے آگے وہ چپکی ہو گئیں۔

دوسری جانب شفیقہ کے ساتھ سب سے زیادہ باسق تڑپ گیا تھا۔ اسے نانو سے یہ امید نہ تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ بات کرے لیکن اماں جی نے سب کو منع کر دیا کہ اب شفیقہ سے کوئی بات نہ کرے۔ ادھر شفیقہ کا بھی رو رو کر برا حال تھا میکہ چھوٹ گیا تھا۔ رشتے ختم ہو گئے تھے۔ یہاں پر سب سے زیادہ اثر عشبہ پر ہوا تھا۔ اچانک سے سب رشتے ختم ہو گئے۔ باسق اور اس کا رشتہ یون پل بھر میں ختم ہو جاۓ گا یہ تو سوچا بھی نہ تھا۔ وہ تو بچپن سے لے کر آج صرف صرف باسق کے بارے میں سوچتی چلی آ رہی تھی اس کے دل و دماغ پر صرف اور صرف باسق کا راج تھا ۔ اس نے باسق کو چاہا تھا دل کی شدتوں کے ساتھ ۔ باسق کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے سپنے دیکھتی آئی تھی۔ جب کہ حفصہ پر اتنا اثر نہ ہوا تھا وہ فطرتا ہی لا ابالی تھی بلکہ وہ خود عشبہ کو سمجھاتی اس کا دماغ ادھر ادھر لگانے کی کوشش کرتی تھی۔

دونوں امتحانات سے فارغ ہوئیں تو عشبہ کے لیے اچھا سا رشتہ آ گیا اور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ عشبہ کو یقین ہو گیا تھا کہ سب کچھ بدل چکا ہے پہلے جیسا کچھ نہ رہا تھا۔ پرانے رشتے ختم ہو کر نئے رشتے بننے جا رہے تھے گھر والوں کی خوشی اور رضا مندی کے لیے اس نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔ گو کہ لقمان صاحب اور اعجاز صاحب بھی بہن سے رشتہ ختم ہو جانے پر افسردہ تھے مگر اماں کے سامنے چپ تھے۔ گھر میں بجھے دل کے ساتھ عشبہ کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں تو اور گھر میں چھایا جمود ٹوٹا اور سب لوگ انتظامات میں لگ گئے۔ جھٹ پٹ رشتہ طے ہوا اور تاریخ بھی طے ہو گئی۔

عشبہ بھی گزری ہوئی یادوں کو بھول کر نئی زندگی کی شروعات کرنے جا رہی تھی۔ شادی والے دن بھاری بھرکم جوڑے میک اپ اور جیولری میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ سارے انتظامات ہو چکے تھے دلہن والے ہال پہنچ چکے تھے ۔ حفصہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بارات کا انتظار کر رہی تھی ۔ لقمان صاحب' اعجاز صاحب اور اسجد خاندان کے کچھ لوگوں کے ساتھ ہال کے گیٹ پر بارات کے منتظر تھے جبکہ ہال کے اندر عطیہ اور صبوحی مہمانوں کو دیکھ رہی تھیں۔ ایک طرف سلطانہ بیگم اپنی دلہن بنی بے حد حسین پوتی کو دیکھ رہی تھیں آج ان کا دل بری طرح بھر آ رہا تھا پوتی کی جدائی کا غم اور ساتھ ساتھ شفیقہ کی بھی یاد آ رہی تھی۔ اکلوتی بیٹی تھی ان کی بظاہر وہ مضبوط تھیں مگر نہ جانے کیوں اندر سے دل دہلا جا رہا تھا انجانا خوف آس پاس منڈلا رہا تھا۔ ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ ٹائم گزرتا جا رہا تھا اور بارات کا کوئی پتہ نہ تھا۔ اب تو لقمان صاحب اور اعجاز صاحب بھی سخت تشویش کا شکار ہو گئے تھے۔ کئی بار فون کیا مگر کوئی بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ عجیب بے چینی اور اضطرابی طاری تھی اعجاز احمد اندر باہر ہو رہے تھے۔ اسجد الگ پریشان تھا صبوحی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ انجانے خوف سے دل لرز رہا تھا۔ جیسے نہ جانے کیا انہونی ہونے والی ہے۔

" اماں بارات آنے اور ہماری کال ریسیو نہ کرنے کا مطلب اچھا نہیں ہو سکتا۔ میرا تو دل دہلا جا رہا ہے مجھے تو لگ رہا ہے کہ وہ لوگ بارات نہیں لا رہے۔ " عطیہ بیگم نے ساس کے پاس آ کر کہا تو سلطانہ بیگم کانپ گئیں۔