SIZE
4 / 11

" انصار آپ سے بات کر کے آپ سے مشورہ لے کر میں نے یہ بات کی تھی۔ اس وقت آپ بھی اس بات پر راضی تھے۔ خوش تھے اور آپ نے رضا مندی بھی دی تھی۔" شفیقہ بیگم کا دماغ گھوم گیا انصار تو بالکل الٹی بات کر رہے تھے۔

" واٹ؟" انصار بدتمیزی سے ان کی جانب دیکھا۔ " حد ہے بیوقوفی کی۔۔۔۔۔ فضول اور بے معنی بات کو دل سے لگا کر بیٹھی ہو۔ بے وقوف عورت۔۔۔۔۔ میرے نزدیک اس بات کی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت۔"

" انصار آپ کی نظر میں وہ بات غیر اہم ہو گی مگر میرے لیے عزت کا سوال ہے ۔ میرے بھائیوں کی بیٹیاں اور بیٹا میرے بچوں کے نام سے منسوب ہیں۔ میں بھائیوں اور ماں کے سامنے جھوٹی نہیں بن سکتی اور۔۔۔۔ اور اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ ہمارے بچے بھی ان رشتوں پر راضی اور خوش ہیں اور عبرہ بھی اسجد کو پسند۔۔۔۔"

" چپ کرو۔" انصار صاحب نے بیوی کی بات کاٹی۔

" عبرہ کو وہی کرنا ہو گا جو میں چاہتا ہوں کیونکہ نہ صرف عبرہ کو اچھا پیسے والا پڑھا لکھا لڑکا ملے گا بلکہ اس طرح ہمارے بزنس کو بھی کافی بہتر اور پوزیٹو پوائنٹس ملیں گے۔" انصار اپنا حتمی فیصلہ سنا کر جا چکے تھے۔

"مما۔۔۔۔۔ " عبرہ جو کمرے کے باہر کھڑی ماں باپ کی باتیں سن رہی تھی بھاگ کر شفیقہ کے پاس آ گئی۔ شفیقہ دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر رو رہی تھیں۔

" عبرہ تمہارا باپ پاگل ہو گیا ہے۔ میں کیا منہ دکھاؤں گی اپنے بھائیوں کو اتنے عرصے بعد تمہارے باپ کو رشتے میں برائی نظر آئی کتنی ترقی کتنا پیسہ چاہیے ان کو۔"

" مما پلیز خود کو سنبھالیں۔" عبرہ بھی ماں کے ساتھ رونے لگی تھی۔ باسق' بسیم اور عبرہ نے کتنا کتنا سمجھایا مگر انصار صاحب کی ناں ہاں میں نہ بدلی ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو واپس پسماندگی میں نہیں بھیجوں گا اور فرخ جیسا لڑکا نصیب سے مل رہا ہے۔ شفیقہ بیگم سخت ذہنی اذیت کا شکار تھیں۔ عبرہ کا برا حال تھا باسق اور بسیم بھی پریشان تھے۔ باپ کے ساتھ بد تمیزی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شفیقہ بیگم اپنی ماں سے بھی واقف تھیں اصولوں کی پکی اور زبان پر قائم رہنے والی خاتون تھیں۔ اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہ کیا۔ آنے والے حالات سے شفیقہ بیگم سخت ہراساں تھیں کہ کس منہ سے عبرہ کی شادی اور رشتے کی بات کرتیں' کیسے کہتیں کہ عبرہ اور اسجد کا رشتہ ختم کر دیا ہےاور نتیجہ عین شفیقہ بیگم کے توقعات کے مطابق نکلا۔ سلطانہ بیگم نے سنا تو ہتھے سے اکھڑ گئیں۔

" شفیقہ اب تمہیں اپنی بیٹی کے لیے بھائی کا گھر حقیر لگ رہا ہے۔ تمہارے معیار پر پورا نہ اترنے والا اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے ہم تینوں بچوں کے رشتے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔" اماں نے ہتمی انداز اپنایا۔

" ارے۔۔۔۔ ارے اماں کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟ وہ تو صرف اسجد۔۔۔۔؟" عطیہ بیگم نے ہلکا سا احتجاج کیا۔

" عطیہ چپ کرو تم۔۔۔۔ جہاں میری زبان کا پاس نہیں وہاں میرے لیے ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔سمجھ لو آج سے شفیقہ سے ہمارا رشتہ بھی ختم ہو گیا۔ " سلطانہ بیگم غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔