SIZE
1 / 9

" کیا آپ زندگی کے اس سفر میں میرا ساتھ دیں گی علینہ سرفراز!" شارق احمد کے کیے گئے بظاہر اس سادہ سے سوال نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا۔ بہت دور کئی سال پیچھے دھکیل دیا ' جب میں بہت چھوٹی تھی سترہ' اٹھارہ سال کی' تمہاری نظر میں بیوقوف بچہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ' بہت آسان ہوتا تھا نا تمہارے لیے' کسی کی دل آزاری کرنا ' یہ سوچے بغیر کہ دوسرے کے بھی کچھ احساسات ہو سکتے ہیں۔

سوچتے سوچتے اس۔۔۔۔ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور ماضی کی گہرائیوں میں کھو گئی۔

جب وہ ایک شوخ و چنچل اور شرارتی سی لڑکی تھی' نہ گزرے ہوۓ کل کا غم تھا نہ آنے والی کل کی فکر' بڑے بھائیوں اور ماں باپ کی لاڈلی اور چہیتی بیٹی' جب کھل کھلا کر ہنستی تھی تو گویا چہرے پر گلاب کھل اٹھتے تھے'اپنے بچپن کی دوست سارا کے ساتھ' جب دونوں لان میں سائیکل چلایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گیٹ سے باہر بھی نکل جاتی تھیں تو امی کی ڈانٹ سننا پڑتی' کہ " خدا کا خوف کرو اب تم بچی نہیں ہو۔" لیکن پھر بھی ہم نگاہ بچا کر نکل ہی جاتے تھے۔

" سارا۔" میں سارا سے مخاطب ہوتی۔ " یہ بھی خوب ہے کہ جب اپنی مرضی کرو تو تم بچی نہیں ہو اور گھر کے کاموں میں دل لگاؤ بڑی ہو گئی ہو اور جہاں کسی بات میں بولے تو پھر فورا چپ کرا دیا جاتا ہے کہ بچے نہیں بولتے بڑوں کی باتوں میں ۔" میں بڑبڑاتی رہتی اور سارا ہنستی رہتی میری باتوں پر۔

ہمارے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ایک بڑا خوب صورت سا بنگلہ تھا جس کا گیٹ ہمیشہ بند ہی دیکھا تھا' لیکن آج جب میں اور سارا ایک دوسرے کے پیچھے سائیکلنگ کرتے ہوۓ تیزی سے گزر رہے تھے تو ایک دم میرے پیر بریک پر تھم گئے۔ میرے پیچھے سارا گرتے گرتے بچی۔

" تو یہ ہے علینہ! یہ کیا حرکت ہے؟ چلتے چلتے ایک دم رک گئیں اور یہ کیا حرکت کر رہی ہو۔' کسی کے گھر میں جھانکنا کتنی بری بات ہے۔"

مجھے تو جیسے سارا کی آواز سنائی دے رہی تھی اور میں کھلے ہوۓ سیاہ گیٹ کے اندر کھڑی کرولا کے اندر بیٹھتے ہوۓ ڈیشنگ اور اسمارٹ سے شخص کو دیکھے جا رہی تھی۔

" میں تو اسے بھوت بنگلہ سمجھ رہی تھی' یہاں لوگ رہتے ہیں۔"

اور پھر یہ ہمارا معمول بن گیا کہ کالج سے آتے جاتے بنگلے کا جائزہ ضرور لیتے تھے۔

میں اور سارا لان میں بیڈمینٹن کھیل رہے تھے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے جا رہے تھے۔

" سارا! تم نے دیکھا یہ کتنا ہینڈسم شخص ہے' میں تو حیران ہوں' بالکل ہیرو کی طرح۔"