SIZE
5 / 6

" یہ کی ہے ناں اچھی بیویوں والی بات۔" اس نے پھر بھی سراہا ' وہ خاموش رہی' لیکن ہار اسے بھی منظور نہیں تھی۔

" تمہیں کھانا بنانا آتا ہے۔"

" جی۔۔۔۔۔۔"

" کیا کچھ بنا لیتی ہو۔"

" سب کچھ۔۔۔۔۔"

" یہ انٹرویو مجھے پسند نہیں آ رہا' اب کچھ مجھ سے بھی پوچھو نا۔" اس نے بڑے لاڈ سے فرمائش کی۔

" کیا پوچھوں۔" وہ سپاٹ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

" یہی کہ اس سمندر جیسی آنکھوں میں کب ڈوبا تھا اور دیکھو ابھی تک مجھے تیراکی نہیں آئی۔" وہ کہہ کر خود ہی ہنسا ' پھر اپنی والہانہ محبت بھری نظریں اس پہ جما دیں۔

وہ جی بھر کر جزبز ہوئی اور سوچا' اس سے تو اچھا تھا یہ بولتا ہی رہے۔

بہت دن ہوۓ دیوار پار سے بھابی کی مخصوص آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔ مہرو نے دیوار کے ساتھ آٹھ دس اینٹیں جوڑ کر رکھیں اور پھر ان پہ چڑھ کر منڈیر کے اس پار جھانکا۔ دونوں بچے چارپائی پہ سہمے سے بیٹھے تھے اور کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں ' پھر بھائی کا چہرا نمودار ہوا' ان کی نظر مہرو پہ پڑی تو اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ مہرو کے دل پہ جیسے گھونسا سا پڑا تھا۔ وہ اینٹوں سے نیچے اتر آئی۔ دل جیسے کسی نادیدہ بوجھ تلے دبنے لگا تھا۔ حلق میں پھندا سا لگااور آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گئیں۔ وہ کتنی ہی دیر روتی رہی تھی۔ احمر نے اس کی سرخ آنکھوں کا سبب پوچھا تو ٹال گئی۔

" کیا بھائی اس سے ناراض ہے۔" یہ خیال ہی کس قدر جان لیوا تھا' ایک ہی تو بھائی تھا اس کا' بس ایک رشتہ' اگر وہ بھی خفا ہو جاتا تو۔۔۔۔ اور وہ بھائی کے بچوں کے بغیر کیسے رہے گی۔ پھر ایک روز بھابی آئیں اس کے پاس۔۔۔۔ سوجی ہوئی آنکھیں ' ملجگا حلیہ۔

بھابی نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ " مہرو' پلیز مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔ ابا نے ساری جائیداد احمر کے نام کر دی ہے اور تمہارے بھائی نے اس کا زمہ دار مجھے ٹھہراتے ہوۓ گھر سے نکال دیا ہے۔ میں بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔" وہ رو رہی تھیں' گڑگڑا رہی تھیں' التجا کر رہی تھیں اور مہرو کا دل جیسے قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا۔

" میں احمر سے کیسے بات کروں اور اتنی بڑی جائیداد سے وہ کیوں دستبردار ہو گا اور اگر جائیداد کے ساتھ اس نے مجھے بھی چھوڑ دیا تو۔۔۔۔ میں بھلا اس کے بغیر کیسے رہوں گی۔" سوچ سوچ کر وہ روہانسی ہو گئی تھی۔

" مہرو' کھانا تو ٹھیک سے کھاؤ۔" احمر نے اسے دوسری بار ٹوکا تھا۔

" میں کھا چکی ہوں۔" اس نے بے دلی سے پلیٹ پیچھے سرکائی۔

" تم پریشان ہو۔" وہ اس کے چہرے کا رنگ پہچانتا تھا۔