SIZE
2 / 6

" خوشبو میں بسا یہ شخص خود نجانے کیسا ہو گا۔"

یہ خیال کہ وہ کیسا ہو گا ' خود بخود اس کے دماغ میں چبھنے لگا تھا اور پھر اج تو بھابی کے ہاتھوں تازہ بے عزتی کا صدمہ یہ سوچ کر کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔

" کیا ساری باتیں دیوار پار بیٹھے اس شخص نے بھی سنی ہوں گی۔" اس کی پلکیں ایک بار پھر بھیگ گئیں۔ اسے لگ رہا تھا کبھی یہ شخص آ کر اس کے سامنے آیا تو وہ مارے خفت کے نظریں نہیں اٹھا پاۓ گی۔ عجیب ہلکا پن سا محسوس ہو رہا تھا اسے جیسے بھابھی کچھ بھی کہہ لیتی' مگر اس شخص کے سامنے نہیں۔۔۔۔

جانے کون تھا یہ شخص جسے دیکھا نہیں تھا۔ جانتی نہیں تھی۔ پھر بھی جیسے حواسوں پہ چھا گیا تھا۔

اس کے بھائی کا خوب چلتا ہوا اسٹور تھا' مگر بھابی کی نظریں ان کی خاندانی زمین پر تھیں کہ اس کو بیچ کر بینک بھر لیا جاۓ۔ بارہا وہ اپنے باپ سے اس لہجے مین بات کر چکا تھا' مگر کرم دین جو اب بوڑھا ہو چکا تھا' بغیر لاٹھی کے چلا نہیں جاتا تھا۔ سماعت اونچا سننے کی عادی تھی' مگر اس ایک معاملے میں وہ کچھ بھی نہیں سنتا تھا۔ یوں باپ' بیٹے کی درمیانی فضا کچھ کشیدہ تھی اور مہرو ' باپ' بھائی اور بھابی کے درمیان پس رہی تھی۔

" مہرو آج میرے لیے کھیر بنانا۔" وہ ابا کے کمرے میں پانی کا جگ رکھنے آئی تو ابا نے نئی فرمائش کر دی تھی ' مہرو لب کچلتے ہوۓ ابا کو دیکھنے لگی۔ کبھی میٹھا ' کبھی چٹ پٹا ' لگتا تھا ابا کو اپنی صحت کی کوئی فکر نہیں تھی۔ آرام سے آنکھیں موندے لیٹے تھے۔ اندر ہی اندر جز بز ہوتے وہ کمرے میں بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔ تب ہی ابا کی آواز ایک بار مہرو کی سماعت سے ٹکرائی ' جس نے اسے بھونچکا کر دیا تھا۔

" باہر دھوپ نکلی ہے تو مجھے چھت پر لے چلو۔"

اس نے ہاتھ روک کر حیرت سے ابا کو دیکھا اور اگلے ہی پل جیسے روہانسی ہو گئی۔

" ابا میں اکیلے آپ کو کسیے چھت پر لے جا سکتی ہوں۔" مگر کرم دین کی ضد کے آگے اس کی ایک نہیں چلی تھی' وہ ابا کو سہارا دے کر سیڑھیوں تک لائی۔

" بس بس۔۔۔۔ اب اتنا بھی بوڑھا نہیں ہوا' خود چڑھ سکتا ہوں' تم بس میرے پیچھے چلو۔" اب یہ نئی پابندی تھی' ابا کو کوئی کسی بات کے لیے رضامند نہیں کر سکتا تھا' وہ اپنی مرضی کے مالک تھے اور دوسروں کو بھی اسی پر چلاتے تھے۔ بھابی باہر نل پر بچوں کو نہلاتی کن اکھیوں سے دونوں باپ' بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔

" نخریل بڈھا' ساری جائیداد پر سانپ بن کر بیٹھا ہے' قبر میں تو لے کر نہیں جاۓ گا' کلثوم تو ہی صبر کر لے۔" بڑبڑاتے ہوۓ آخر میں جیسے خود کو دلاسا دیا تھا۔ " شہر میں خوب بڑا سا گھر لوں گی' بچے انگریزی سکولوں میں پڑھیں گے' نوکر چاکر' واہ میرے کیا ٹھاٹ ہوں گے' بڑی بیگم صاحبہ بن کر گھوموں گی۔" اس کی سوچوں کو دھکا مہرو کی دلدوز چیخوں نے لگایا تھا۔

ابا نے پاؤں اگلی سیڑھی پہ رکھا ہی تھا کہ پاؤں رپٹ گیا' مہرو نے بمشکل انہیں تھام رکھا تھا ' لیکن بغیر کسی سہارے کے وہ ان کا توازن بحال نہیں کر سکتی تھی۔