SIZE
1 / 6

سرما کی نرم گرم دھوپ نے آنگن میں ڈیرہ جما لیا تھا' نکھرا ستھرا آسمان جو کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا تھا۔ جھاگ کی مانند بڑے بڑے سفید بادلوں کے پہاڑ سے نیلے افق پر پھیلے تھے۔ چھت پر دیوار کے ساتھ کین کی کرسی لگی تھی جس پر بیٹھا وہ چاۓ سے۔۔۔۔ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سامنے میز پر اخبار پھیلا ہوا تھا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ گونج رہی تھی۔ آج اتوار تھا اور کچھ فراغت بھی تھی۔

" اتنا خرچہ کرا دیا' بھلا اس صورت کے ساتھ کون پسند کرنے والا ہے تمہیں' مگر یہ بات تمہارے بھائی کی سمجھ میں نہیں آتی ' آۓ دن کسی نہ کسی رشتے والے والے کو لے کر آ جاتے ہیں' اس پر نت نئی فرمائشیں ' کمر تختہ ہو گئی میری' اب کھڑی اپنی رونی منحوس صورت کا ماتم نہ کرتی رہنا ' جلدی سارا کچن سمیٹ کر نیچے آؤ ' کپڑوں کا ڈھیر رکھا ہے دھونے کے لیے۔" آنسو اٹی پاٹ دار بھدی آواز نے اس کی سماعت کو جھنجوڑا تھا۔ یہ آواز دیوار پار آ رہی تھی۔

وہ ابھی چند روز قبل ہی اس نئے مکان میں شفٹ ہوا تھا اور یہ آواز جیسے معمول کا حصہ تھی۔ جانے کیا مسئلہ تھا اس عورت کے ساتھ ' ہر وقت چیختی چنگھاڑتی ہی رہتی تھی۔ کبھی بچوں پر برستی' کبھی برتنوں کو زور زور سے پٹختی' مگر اسے لگتا اس کے عتاب کا زیادہ تر نشانہ یہی لڑکی بنتی تھی جس کا نام مہرو تھا۔ وہ گرج برس کے جا چکی تھی اور اب مہرو کی دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔

احمر کچھ بے چین سا ہو اٹھا ' دل چاہ رہا تھا اٹھ کر ایک بار دیوار پار دیکھے تو سہی' آخر ایسی کیا کمی تھی اس لڑکی میں ' اس کا بڑی شدت سے دل چاہ رہا تھا کہ وہ دیکھے کہ وہ کتنی بد صورت ہے' کیونکہ اس کا جب بھی کوئی رشتہ مسترد ہوتا تو اس کی صورت کو ہی مورد الزام ٹھہراتی تھی۔

وہ کرسی سے اٹھا اور پھر رک گیا۔ " نہیں یہ بہت ہی معیوب اور غیر اخلاقی حرکت ہو جاۓ گی۔" دل کو سمجھا کر بہلا لیا' مگر دوسری جانب کی بن بادل برسات نے اسے ہنوز بے چین کیے رکھا تھا۔

وہ کچن سمیٹ کر برتن دھونے کے بعد باہر نکلی تو مخصوص خوشبو کا جھونکا اس کے نتھنوں سے سے ٹکرایا اتنی دلکش اور معطر سی خوشبو نے جیسے اس کے اندر کے بوجھل پن کو زائل سا کر دیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑی اس خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارتی رہی ' یہ کسی مردانہ پرفیوم کی خوشبو تھی' مہرو نے اکثر اس خوشبو کو دیوار کے اس پار محسوس کیا تھا۔

" لگتا ہے یہ بندہ پرفیوم کی پوری بوتل ہی خود پر انڈیل لیتا ہے۔" وہ اکثر یہ بات سوچتی اور پھر مسکرا دیتی۔