SIZE
5 / 10

وسیم کو ماہرا کا ڈر تو کیا ' معمولی سی مروت بھی محسوس نہ ہوتی تھی۔ شمائلہ کو دنیا والوں کی پرواہ نہ تھی یوں بھی وہ سال بھر شادی کا کھیل رچا کر معتبر بن چکی تھی۔ اب اسے " کنواری" اور " جوان جہان" لڑکی کے ٹائٹل سے نجات مل چکی تھی۔ وہ اپنے تئیں بہت " ان ڈیپینڈنٹ" خیال کرنے لگی تھی۔

ان کا یہ نظر بازی سے مزین عشق بہت نیا نہ تھا ۔ یہ تب کی بات تھی جب وسیم روزگار سے بھی نہ لگا تھا ۔ وہ سارا دن ٹیپ پر گانے لگاۓ کھرکی میں بیٹھا رہتا تھا ۔ شمائلہ' بیوہ ماں کی اکلوتی اولاد تھی ۔ اسے بھی سامنے والی کھڑکی میں اک چاند سا ٹکڑا رہتا ہے' والا گانا متاثر کر گیا۔ ماں کو وہ کسی خاطر میں نہ لاتی تھی۔ وہ پوری طرح سے چاند بننے پر آمادہ ہو کر کھڑکی کے افق پر ٹنگی رہتی اس وقت وسیم کی ماں زندہ تھی ۔ اس نے جو بیٹے کے سر پر عشق کا بھوت سوار ہوتے دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا ۔ وہ ہرگز شمائلہ جیسی خوب صورت بلا کو گھر لانے کا خطرہ مول لینا نہ چاہتی تھی جو کھلی کھڑکیوں سے پراۓ لڑکوں سے تانکا جھانکی کرتی ہوں۔

ماہرا کی ماں ' وسیم کی ماں کی پرانی سہیلیوں میں سے تھی۔ وسیم کی ماں نے چند ایک مرتبہ ماہرا کو دیکھا تھا۔ وہ ایک ذہین ' لائق اور اچھے اخلاق کی لڑکی تھی۔ ماہرا کی ماں اپنی بیٹی کی کم روئی سے پریشان تھی۔ رشتے اتے تھے لیکن کہیں بات نہ بنتی تھی۔ اسے وسیم کی شکل و صورت بھا گئی تھی۔ کم شکل لڑکی کے لیے خوب صورت' وجیہہ لڑکے کا رشتہ اسے اچھا لگا۔ لڑکے کی تعلیم کم بھی تھی تو اس سے فرق نہ پڑتا تھا۔ وسیم محض بی-اے پاس تھا۔ ماہرا کی ماں نے کم تعلیم اور بے روزگاری کے باوجود اپنی زہین ' اعلی تعلیم یافتہ بیٹی کا ہاتھ وسیم کے ہاتھ میں تھما دیا۔

وسیم کو شادی کی اولین رات ہی بے حد مایوسی ہوئی تھی ۔ اسے ماہرا کی ڈگری سے دلچسپی نہ تھی بلکہ یہ بات تو اس کے لیےباعث ہتک تھی کہ بیوی اس سے زیادہ پڑھی لکھی اور قابل تھی ۔ پھر وہ سمائلہ کی گوری رنگت کا مارا ہوا تھا ۔ اسے سانولے رنگ کی بیوی اپنے ارمانوں کا خون محسوس ہوئی۔ پہلی رات ہی دونوں کے مابین ایک ان دیکھی خلیج حائل ہو گئی۔

ماہرا کو نئے نویلے دولہا کی عدم دلچسپی کی وجہ جلد ہی سمجھ آ گئی۔ وسیم سارا دن کھڑکی میں ٹنگا رہتا۔ شمائلہ اپنے رنگ برنگ آنچل لہراہا کرتی ۔ وسیم ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتا ' وہ جوابا انگوٹھا دکھاتی۔

پڑوس کی لڑکی عظمی جب ماہرا کی دوست بنی تب اسے پورےاور اصل قصے کا ٹھیک ٹھیک علم ہو گیا۔ اسے یہ سب جان کر بے حد افسوس ہوا تھا ۔ اس کے خیال میں وسیم کی ماں نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ بیٹا قابو میں رکھنے کے لیے اس نے ماہرا کو قربانی کا بکرا بنایا تھا۔

وسیم کی ماں، ' ان کی شادی کے چند ماہ بعد ہی ہیپاٹائٹس کا شکار ہو کر چل بسی۔ ماہرا مزید تنہا ہو گئی۔ وسیم کی بے التفاتی بدستور تھی۔ کھڑکی میں بیٹھے رہنا اس کا من پسند مشغلہ تھا۔ وہ چھوٹی موٹی' پارٹ ٹائم قسم کی نوکریاں کرتا اور فل ٹائم عشق لڑاتا اور عشق بھی انتہا درجے کا فضول اور بے حاصل بھلا دور سے نظر آتی ایک گوری چٹی لڑکی میں کسی کی توجہ آخر کب تک مبذول رہ سکتی ہے۔ اور اسے تکتے رہنے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟