SIZE
4 / 10

غسل خانے کا دروازہ کھول کر وہ جونہی باہر نکلی اسے یوں لگا جیسے سانپ کی بجاۓ وہی ناگن اسے سونگھ گئی ہو جسے اس نے کھڑکی میں دیکھا تھا! وسیم کھڑکی کھولے کھڑا تھا ۔ اس کی پشت ماہرا کی جانب تھی۔ دونوں ہاتھ کھڑکی کی چوکھٹ پر جماۓ وہ باہر کیا دیکھ رہا تھا ' ماہرا خوب جانتی تھی! پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اس کے قریب چلی آئی۔

وسیم! آپ کب آۓ؟"

وسیم چونک کر مڑا ۔ اس کی نظروں میں ماہرا کے لیے اجنبیت تھی اور لبوں پر چند لمحے قبل والی مسکان کا سراغ تھا ۔ ماہرا کو اس کے عقب میں سامنے والی بلڈنگ کے اس فلیٹ کی کھڑکی نظر آئی ۔ وہاں نیلے لباس کی جھلک تھی۔ اس کے لبوں سے فریاد کے سے انداز میں ایک آہ نکلی۔ پھر وہ چاۓ بنانے کے لیے کچن کی جانب چل دی!

شب و روز ایک مرتبہ پھر بدل گئے تھے۔ ستارون نے شاید پھر چال بدلی تھی۔ ماہرا کے لیے وہی دن پلٹ آۓ جب وہ نئی نئی شادی کے بعد اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کر رہی تھی۔ وسیم پھر سے وہی وسیم بن گیا تھا۔ جس کے انداز میں خشونت' نگاہوں میں اجنبیت اور لہجے میں کرختگی تھی۔ وہ آفس سے جلد لوٹ آتا اور گھر آتے ہی بے حد بیتابی سے اپنی فائل میز پر پھینکتا ہوا کھڑکی کی جانب بڑھتا ۔ ماہرا کے لٹکاۓ ہوۓ دبیز پردوں کو وہ ایک ہی جھٹکے میں ایک طرف ہٹا دیتا اور پھر کھڑکی کھول کر گہری سانس بھرتا اور مسکراتا۔ اس کی سانس میں طمانیت اور مسکراہٹ میں جاذبیت ہوتی تھی۔ اس کے عقب میں ماہرا بھی ایک گہری سانس بھرتی تھی۔ اس سانس میں جذبوں کے کے جلنے کی بو ہوتی تھی۔ خوابوں کے لوٹنے کی کراہ ہوتی تھی۔ وسیم کو نہ تو کچھ جلنے کی بو محسوس ہوتی اور نہ ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز اس کے کانوں تک پہنچتی تھی۔ وہ کرسی کھڑکی کے سامنے ڈال لیتا اور پھر رات تک وہیں بیٹھا رہتا تھا۔ ماہرا جلے پاؤں کی بلی کی طرح کمرے کے چکر کاٹتی اور بہانے بہانے سے اسے مخاطب کرتی۔ اس کا دھیان بٹانے کی اپنی سی سعی کیا کرتی لیکن وسیم کی توجہ سامنے والی بلڈنگ کی اسی کھڑکی کی جانب مرتکز رہتی جہاں شمائلہ روز نئے نئے رنگوں کے کپڑے بدل بدل کر سامنے پھرا کرتی۔

شمائلہ کے پاس پہننے کے لیے بہت خوب صورت رنگوں کے کپڑے تھے۔ اپنی دمکتی رنگ کے لحاظ سے وہ سرخ' جامنی' نیلا اور سبز رنگ خوب پہنا کرتی۔ وہ زیادہ دیر کھڑکی میں نہ ٹھہرتی تھی بلکہ ہر تھوڑی دیر بعد ایک جھاک دکھا کر غائب ہو جایا کرتی۔ کبھی وہ دونوں کہنیاں چوکھٹ پر ٹکا لیتی اور ظاہر کرتی کہ وہ نیچے روڈ پر گزرتی ٹریفک دیکھ رہی تھی۔ کبھی کن اکھیوں سے اور کبھی پورے طور وضاحت سے وسیم کو دیکھتی اور کبھی کبھار تو وہ بے حد شوخی کا مظاہرہ کر کے وسیم کو ایک آدھ اشارہ بھی کر دیا کرتی تھی۔ وسیم اس دن بہت خوش ہوتا تھا ۔ وہ عشقیہ ' رومانوی گانے سنتا اور پہروں سوچ میں ڈوبا ' مسکراتا رہتا۔ ماہرا کچن کے روشن دان تک اسٹول کے زریعے پہنچتی تھی اور وہاں سے شمائلہ کی حرکات پر نگاہ رکھتی تھی ۔ لیکن اس جاسوسی سے اسے کچھ خاص فائدہ حاصل نہ تھا کیونکہ وسیم اور شمائلہ چھپ چھپا کر نہیں بلکہ علی الاعلان نظر بازی کا کھیل کھیلتے تھے۔