SIZE
3 / 13

" تو کیا عارفہ باجی کو گھر داری نہیں سیکھنی چاہیے، ایم اے کی ڈگری ہی اگلے گھر کام آے گی". یہ بات وہ صرف دل میں سوچتی تھی،

زبان پی لانے کی ہمت کبھی نہیں کی، کیوں کہ ماموں اسکا داخلہ کالج میں کروا چکے تھے. شہر کے بہت بڑے اڑھتی تھے یتیم

بھانجی کے لئے اتنا تو کر سکتے تھے.

وہ صبح پہلی ہی اذان پر اٹھتی تھی. ماموں اور مامی کا ناشتہ اکھٹے وہ ٹائم پر ہی بنا لیتی تھی، کیوں کہ ماموں کو سویرے

کام پہ نکلنا ہوتا تھا، مگر مسئلہ عارفہ کا تھا جو دن چڑھے اٹھ کر ناشتہ کرنے کی عادی تھی. ناشتہ بھی فرمائشی، اگر آج

ہاف بوائل انڈا ہے تو لازمی نہیں اگلی صبح بھی ہاف بوائل ہی لے، اسکا پورج لینے کا بھی دل کر سکتا ہے. مروہ کو اسے

پوچ کر ہی ناشتہ بنانا پڑتا تھا. دن کی ہانڈی وہ ناشتے سے فراغت پاتے ہی چڑھا دیتی تھی. اسی مصروفیت میں اسکے دو

پیریڈ مس ہو جاتے تھے، مسز ہاشمی نے سختی سے کہ دیا تھا کہ انکے سبجیکٹ میں مسلسل غیر حاضر تھی تو اسکو رول

نمبر سلپ جاری نہیں کی جاتے گی. وہ فری پیریڈ میں اپنی دوست سے نوٹس لے کر اپنے نوٹس تیار کر لیتی تھی. وہ بہت پر

زیادہ زہین تو نہیں تھی البتہ محنتی ضرور تھی. حصول تعلیم اسکا اولین شوق تھا. جسے پورا کرتے ہوے اسے سہی معنوں

میں دانتوں تلے پسینہ آجاتا.

کالج سے واپسی پر سارے گھر کی صفائی کرنا، ماموں جز وقتی تو کیا کل وقتی ملازمہ بھی رکھ سکتے تھے مگر کیا کرے

مامی کو ہر کام مروہ کے ہاتھ کا پسند آتا تھا، مروہ کے ہاتھ کے پکے کھانے، مروہ کے ہاتھ ک دھلے برتن اور اسی کی ہاتھ

کی کپڑوں کی استری.......پسند تو عارفہ کو بھی اسکا ہر کام تھا. اپنی نگرانی میں اپنا ڈریسنگ ٹیبل ٹھیک کرواتی، بیڈ کی

چادر جھڑواتی اور کوئی کام نہ بھی ہوتا تب بھی اسے اپنے پاس ہی رکھتی تھی.

"دیکھو مروہ! اس لونگ شرٹ اور پاجامے میں، میں کرینہ کپور لگتی ہوں ناں؟" عارفہ کوئی نیا جوڑا خرید کر زیب تن کر کے

اس سے دریافت کرتی.

"جی باجی! آپ بلکل کرینہ کپور لگ رہی ہیں، بہت سمارٹ اور خوبصورت". وہ جھٹ سے سر ہلا کا سراہتی.

" اور یہ ایئر رنگز دیکھو، بکل بلکل ویسے ہیں جسی عمیمہ ملک نے ایک فیشن شو میں پہنے تھے". عارفہ بڑے بڑے رنگین

سے دمکتے بالے کانوں سے لگا کر پوچھتی تو اس بالوں سے پھوٹتی روشنی میں عارفہ کے خوبصورت چہرے کو مروہ

دیکھتی رہ جاتی.

مروہ کو یوں بے خود ہوکر دیکھتے پا کر عارفہ کے رگ و پے میں ایک تفاخر بھری سرشاری دوڑ جاتی تھی. اسکی سراہتی

نظریں، توصیفی الفاظ، عارفہ کا بس نہ چلتا کہ ایک لحمے کے لیے بھی اسے اپنے کمرے سے جانے نہ دے، مگر کیا کرے

کہ شمیم کا بھی مروہ کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا تھا.

شروع مارچ کی ٹھنڈی میٹھی دھوپ سارے میں پھیلی ہوئی تھی، لان میں کھلے نوع بہ نوع پھولوں پہ خوب رنگ و بو کا جوبن آیا

ہوا تھا. عارفہ نہا کر آئی تو تازہ غسل کی ٹھنڈک لیے جسم کو دھوپ کی حدت نے ایک دم سے پر سکون کر دیا تھا. وہ کرسی