SIZE
1 / 13

جی باجی آپ نے بلایا مجھے"؟ وہ گیلے ہاتھ دوپٹے سے پونچھتی ہوئی اندر داخل ہوئی.

" جی میں نے ہی ملکہ مروہ امیر کو بلانے کی جسارت کی ہے. عارفہ اسکے چہرے کو دیکھتے ہوے طنز سے بولی.

"شکر ہے خیال آیا، میرے کمرے میں جھانکنے کا". غصّے سے کہتے ہوے عارفہ نے بیڈ سے ٹیک لگائی اور پاس ہی

اوندھا پڑا ڈائجسٹ اٹھا لیا جو مروہ کو آتے دیکھ کر غصّے سے پاس ہی پٹخ دیا تھا.

"سالن پکا کر آٹا گوندھ رہی تھی، ساتھ ہی بریانی کا مسالہ تیار کر لیا، اسی وجہ سے دیر ہوگئی." وہ شرمندگی سے وضاحت

دینے لگی.

" آپ بتائیں آپکو مجھ سے کیا کام تھا"؟ رسانیت سے پوچھا.

"میری الماری کی صفائی کرنی ہے، سب کچھ الٹ پلٹ پڑا ہے سب اپنی آنکھوں سے دیکھتی تو ہو مگر پھر بھی جب تک تمہیں

کہا نہ جاتے، مجال ہے کوئی کام ہو جاتے تم سے؟" عارفہ کی آنکھوں میں اپنی گہری آنکھیں ڈال کر اپنے مخصوص انداز میں بولی.

" میں ابھی سب کچھ سیٹ کر دیتی ہوں". وہ پھرتی سے دیوار گیر الماری کی طرف مڑ گئی.

ہینگ شدہ ریشمی اور سوتی کپڑے الگ الگ کپڑوں میں لٹکاتے، باقی کاٹھ کباڑ باہر نکل لیا. ٹانگوں کی قینچی بنا کر پاؤں هوئے

عارفہ ہدایات دیتی رہی.

" یہ لینن کا سوٹ باہر نکال دو، پانچ مرتبہ پہن چکی ہوں یہ آف وائٹ کرتے کی اب ذرا دل کو نہیں بھا رہی".

"مگر کیوں باجی ! آپ نے تو بہت شوق سے کڑھائی کروائی تھی؟" کرتا ہاتھ میں تھامے اس نے حیرانی سے پوچھا.

"ہاں اب میرا پہننے کو دل نہیں کرتا. آنٹی جمیلہ کی بیٹی نگین ہو بہو ایسی کڑھائی والی شرٹ پہنے ہوئی تھی. میرا تو دل ہی

اوب گیا اس سے. عارفہ نے ناگواری سے کہا تو اسنے سمجھنے والی انداز میں سر ہلا دیا.

" یہ دو چار جوڑے اب تم رکھ لو. میرے کسی کام کے نہیں." ساتھ ہی اپنے شاہانہ انداز سے اپنے پرانے جوڑے مرحمت کے

گئے تو اسکے چہرے پہ بے ساختگی سرشاری کے رنگ امڈ آتے تھے. جوڑوں کو بازوں میں بھر کر لمحے بھر کے لئے

بھینچ ڈالا. عارفہ کی مخصوص پرفیوم کی خوشبو نے اسکے دل و دماغ پہ کیف آگئیں سا تاثر ڈالا.

"ارے مروہ! کہاں رہ گئی ہو، کچھ ہانڈی کی بھی خبر ہے یا نہیں". اسی دم مامی شمیم اسے پکارتی ادھر آنکلیں.

" جی مامی بس آرہی تھی". وہ گھبرا کر بولی.

"امی! مروہ میرے کمرے کی صفائی کرہی ہیں. فی الحال ایک دو گھنٹے تک یہاں سے کہی نہیں جاتے گی".

عارفہ نے دھونس بھرے انداز میں ماں سے کہا.