SIZE
2 / 7

ساری عمر جمعرات کی شام کو یہ عمل بہت وضع داری سے پابند رہیں. رفتہ رفتہ بہت ہی مسجدوں میں بجلی آگئی. لیکن لاہور اور کراچی میں

بھی انکو ایسی مسجدوں کا علم رہتا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے. وفات کی شب بھی ماں جی کے سرہانے ململ کے

رومال میں بندھے هوئے چند آنے ماجود تھے. غالبا یہ پیسے بھی مسجد کے تیل کے لئے جمع کر رکھے تھے کیوں کہ وہ جعمرات کی ہی

شب تھی.

ان چند آنوں کے علاوہ ماں جی کے پاس نہ کوئی پیسے تھے نہ کوئی زیور.اسباب دنیا میں انکے پاس گنتی کی کچھ چیزیں تھیں. تین جوڑے

سوتی کپڑوں کے، ایک جوڑا دیسی جوتا، ایک جوڑا ربڑ کا جوتا، ایک عینک، ایک انگوٹھی جس میں تین فیروزے جڑے تھے. ایک جاتے

نماز ایک تسبیح اور باقی الله الله.

پہننے کے تین جوڑوں کا وہ خاص اہتمام کرتیں تھیں. ایک زیب تن، ایک ہاتھ سے دھو کر طے لگا کر تکیے کے نیچے رکھا ہوتا. تاکہ

استری ہو جاتے. تیسرا دھونے کے لئے تیار. انکے علاوہ کوئی چوتھا جوڑا انکے پاس آجاتا تو ایک جوڑا چپکے سے کسی کو دے دیتیں.

اسی وجہ سے ساری عمر انکو سیٹ کیس لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی. لمبے سے لمبے سفر پر روانہ ہونے کے لئے بھی انکی

تیاری منٹوں میں ہو جاتی تھی. کپڑوں کی پوٹلی کی بکل ماری اور جہاں کہیں چلنے کو تیار. سفر آخرت بھی انہوں نے اسی سادگی سے اختیار

کیا. میلے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھو کر تکیے کے نیچے رکھے. نہا دھو کر بال سوکھائے اور چند ہی منٹوں میں زندگی کے لمبے سفر

پر روانہ ہو گئیں. جس خاموشی سے عقبی سدھار گئیں. وہ اس ہی موقع کے لئے دعا مانگا کرتیں تھیں کہ الله ہاتھ چلاتے ہی اٹھا لے.

الله کسی کا محتاج نہ کرے.

کھانے پینے میں وہ کپڑے لتے سے بھی زیادہ سادہ تھیں. انکی مرغوب ترین غذا مکئی کی روٹی، دھنیے پودینے کی چٹنی کے ساتھ.

باقی چیزیں خوشی سے تو کھا لیتیں تھیں، لیکن شوق سے نہیں. تقریبآ ہر نوالے پر الله کا شکر ادا کرتیں تھیں. پھلوں کے لئے جب کبھی

بہت مجبور کیا جاتا تو کیلے کی فرمائش کرتیں تھیں. البتہ ناشتے میں چاۓ کے دو پیالے اور تیسرے پھر چاۓ کا ایک پیالہ ضرور پیتی.

کھانا صرف ایک وقت کھاتیں اکثر و بیشتر دوپہر کا. شاز و نادر ررات کا. گرمیوں میں عام طور پر مکھن نکالی ہوئی نمکین لسی کے ساتھ

ایک آدھ سادہ چپاتی انکی محبوب غذا تھی. دوسروں کو کوئی چیز رغبت سے کھاتے دیکھ کر بہت خوش ہوتیں تھیں اور ہمیشہ یہ دعا کرتیں

تھیں اسکے بعد مخلوق خدا کی حاجت روائی کے طفیل اپنے بچوں یا عزیزوں کا بھلا چاہتی ہوں. اپنے بیٹوں یا اپنی بیٹیوں کو انہوں نے اپنی

زبان سے کبھی "میرے بیٹے " یا "میری بیٹی" کہنے کا دعوی نہیں کیا تھا. ہمیشہ انکو الله کا مال کہا کرتیں تھیں.

کسی سے کوئی کام لینا ماں جی پر بہت گراں گزرتا تھا. اپنے سب کا وہ اپنے ہاتھوں سے کرتیں تھیں. اگر کوئی ملازم زبردستی انکا کوئی کام

کر دیتا تو انکو ایک جیب قسم کی شرمندگی کا احساس ہونے لگ جاتا اور احسان مندی سے سارا دن اسکو دعائیں ہی دیتی رہتیں.

سادگی اور درویشی کا یہ رکھ رکھاؤ کچھ تو الله نے ماں جی کی سرشت میں پیدا کیا تھا. اور کچھ زندگی کے زیر و بم میں سکھایا.

جڑانوالہ میں کچھ ارسا قیام کے بعد جب وہ اپنے والدین اور خرد سال بھائیوں کے ساتھ زمین کی تلاش میں لائل پور کی طرف روانہ ہوئیں

تو انہیں کیا معلوم تھا انہیں کس مقام جانا ہے اور زمیں حاصل کرنے کے لیے کیا قدم اٹھانا ہے. ماں جی بتایا کرتیں تھیں کہ اس وقت انکے

ذھن میں کالونی کا تصور کو ایک فرشتہ سیرت بزرگ کا تھا جو کہیں سر راہ بیٹھا زمین کے پروانے تقسیم کر رہا ہوگا.

کئی ہفتے یہ چھوٹا سا قافلہ لائل پور کے علاقے میں پیدل بھٹکتا رہا.لیکن کسی راہ گزر پر انہیں کالونی کا خضر صورت رہنما نہ مل سکا.

آخر تانگ آکر انہوں نے چک نمبر ٥٠٢ میں جو ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا ڈیرے ڈال دے. لوگ جوق در جوق وہاں آکر آباد ہو رہے تھے.

نانا جی نے اپنی سادگی میں سمجھا کے شاید کالونی میں آباد ہونے کا یہی طریقہ ہوگا. چناچہ انہوں نے ایک چھوٹا سا احاطہ گھیر کر