SIZE
1 / 7

ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال نہیں معلوم ہو سکا.

جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا. پنجاب کے ہر قصبے کے غریب الحال لوگ اس کالونی میں زمین حاصل کرنے کے

لئے جوق دار جوق کھینچے چلے آرہے تھے. عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو "بار" کا علاقہ کہا جاتا تھا.

اس زمانے میں ماں جی کی عمر کوئی دس بارہ سال تھی. اس حساب سے انکی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ سالوں میں

کسی وقت ہوئی ہوگی.

ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا. والدین کے ساتھ چند ایکڑ اراضی تھی. ان دنوں روپڑ میں

دریا ستلج سے نہر سر ہند کی کھدائی ہو رہی تھی. نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہوگئی. روپڑ میں انگریز حاکم کے دفتر

میں ایسی زمینوں کے معاوضے دیے جاتے تھے. نانا جی دو تین بار شہر معاوضے کی رقم لینے گئے. لیکن سیدھے آدمی تھے. کبھی

اتنا معلوم نہ کر سکے کہ انگریز کا دفتر کہاں ہے اور رقم وصول کرنے کے لئے کیا قدم اٹھانا چاہیے. انجام کار صبر شکر کر کے

بیٹھ گئے اور نہار کی کھدائی میں مزدوری کرنے لگے.

انہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی تھی اور نئے آباد کاروں کو زمین مل رہی ہے. ناناجی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک

بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر لائل پور روانہ ہو گئے.سواری کی توفیق نہ تھی. اس لئے پاپیادہ چل پڑے.

راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے. نانا جی جگہ با جگہ قلی کا کام کرتے یا کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے. نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات

دیتیں مکانوں کے فرش اور دیواریں لیپ دیتیں. لائل پور کا ٹھیک راستہ کسی کو نہیں پتا تھا. جگہ جگہ بھٹکتے تھے. اور پوچھ پاچھ دنوں

کی منزل ہفتوں میں طے کرتے تھے.

ڈیڑھ دو ماہ کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے. پیدل چلنے اور محنت مشقت سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے هوئے تھے. یہاں پر

چند ماہ قیام کیا. نانا جی سارا دن منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے تھے. نانی چرخا کات کر سوت بیچتیں اور ماں جی گھر سمنبھالتی

جو ایک چوٹھے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا.

انہی دنوں بقر عید آگئی. نانا جی کے پاس چند روپے جمع ہوگئے تھے. انہوں نے ماں جی کو تین آنے بطور عیدی دے. زندگی میں پہلی

بار ماں ہی کے ہاتھ اتنے پیسے آے تھے. انہوں نے بہت سوچا لیکن اس رقم کا کوئی مصرف ہاتھ نہ آسکا. وفات کے وقت انکی عمر کوئی

اسی برس کے لگ بھگ تھی. لیکن انکے نزدیک سو روپے، پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہیں تھا. عیدی کے تین آنے

کئی دن ماں جی کے دوپٹے کے کونے سے بندھے رہے. جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہے تھے ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل

خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا. باقی ایک پیسہ اپنے پاس رکھا. پھر جب کہی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے تو فورا مسجد میں تیل ڈلوا

دیتیں.