SIZE
4 / 9

ظہر اور عصر کے وقت ، میر عمارت ، منشی ، معمار اور دوسرے لوگ مزدوروں سے کنویں سے پانی نکلوا نکلوا کر وضو کرتے نظر آ تے ۔ ایک شخص مسجد میں جا کر اذان دیتا، پھر ایک کو امام بنا دیا جاتا اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔ کسی گاو ¿ں میں ایک ملا کے کان میں جو یہ بھنک پڑی کہ فلاں مسجد میں امام کی ضرورت ہے۔ وہ دوسرے ہی دن علی الصبح ایک سبز جزدان میں قرآن شریف ، پنجسورہ، رحل اور مسئلے مسائل کے چند چھوٹے چھوٹےرسالے رکھ آموجود ہوا۔ اور اس مسجد کی امامت باقاعدہ طورپر اسے سونپ دی گئی۔

ہر روز تیسرے پہر گاو ¿ں کا ایک کبابی پر اپنے سامان کا ٹوکرا اٹھا ئے آجاتااور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس زمین پر چولھا بنا، کباب، کلیجی ، دل اور گردے سیخوں پر چڑھا، بستی والوں کے ہاتھ بیچتا۔ ایک بھٹیاری نے جو یہ حال دیکھا تو اپنے میاں کو ساتھ لے کر مسجد کے سامنے میدان میں دھوپ سے بچنے کے لئے پھونس کا ایک چھپر ڈال کر تنور گرم کرنے لگی۔ کبھی کبھی ایک نوجوان دیہاتی نائی، پھٹی پرانی کسبت گلے میں ڈالے جوتوں کی ٹھوکروں سے راستہ روڑوں کو لڑھکاتا ادھر ادھر گشت کرتا دیکھنے میں آجاتا۔

ان بیسواو ¿ں کے مکانوں کی تعمیر کی نگرانی ان کے رشتہ دار یا کارندے تو کرتے ہی تھے، کسی کسی دن وہ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے عشاق کے ہمراہ خود بھی اپنے اپنے مکانوں کو بنتا دیکھنے آ جاتیں اور غروب آفتاب سے پہلے یہاں سے نہ جاتیں۔ اس موقع پر فقیروں اور فقیرنیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں سے آ جاتیں اور جب تک خیرات نہ لے لیتیں اپنی صداو ¿ں سے برابر شور مچاتی رہتیں اور انہیں بات نہ کر نے دیتیں۔کبھی کبھی شہر کے لفنگے، اوباش و بیکار مباش کچھ کیا ، کے مصداق شہر سے پیدل چل کر بیسواو ¿ں کی اس نئی بستی کی سن گن لینے آجاتے اور اگر اس دن بیسوائیں بھی آئی ہوتیں تو ان کی عید ہو جاتی۔ وہ ان سے دور ہٹ کر ان کے گردا گرد چکر لگاتے رہتے۔ فقرے کستے ، بے تکے قہقہے لگاتے۔ عجیب عجیب شکلیں بناتے اور مجنونانہ حرکتیں کرتے۔اس روز کبابی کی خوب بکری ہوتی۔

اس علاقے میں جہاں پہلے ہی دن، پہلے ہو کا عالم تھا اب ہر طرف گہما گہمی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ شروع شروع میں اس علاقہ کی ویرانی میں ان بیسواو ¿ں کو یہاں آکر رہنے کے خیال سے جو وحشت ہوتی تھی، وہ بڑی حد تک جاتی رہی تھی اور اب وہ ہر مرتبہ خوش خوش اپنے مکانوں کی آرائش اور اپنے مرغوب رنگوں کے متعلق معماروں کو تاکیدیں کر جاتی تھیں۔

بستی میں ایک جگہ ایک ٹوٹا پھوٹا مزار تھا جو قرآئن سے کسی بزرگ کا معلوم ہوتا تھا۔ یہ مکان نصف سے زیادہ تعمیر ہو چکے تو ایک دن بستی کے راج مزدوروں نے کیا دیکھا کہ مزار کے پاس دھواں اٹھ رہا ہے اور ایک سرخ سرخ آنکھوں والا لمبا تڑنگا مست فقیر، لنگوٹ باندھے چار ابرو کا صفایاکرائے اس مزار کے ارد گرد پھر رہاہے اور کنکر پتھر اٹھا اٹھا کر پرے پھینک رہاہے۔ دوپہر کو وہ فقیر ایک گھڑا لے کر کنویں پر آیا، اور پانی بھر بھر کر مزار پر لے جانے اور اسے دھونے لگا۔ ایک دفعہ جو آیا تو کنویں پردوتین راج مزدور کھڑے تھے ۔ وہ نیم دیوانگی اور نیم فرزاندگی کے عالم میں ان سے کہنے لگا۔ ” جانتے ہو وہ کس کا مزار ہے؟ کڑک شاہ پیر بادشاہ کا! میرے باپ دادا، ان کے مجاور تھے۔“ اس کے بعد اس نے ہنس ہنس کر اور آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر پیر کڑ شاہ کی کچھ جلالی کراماتیں بھی ان راج مزدوروں سے بیان کیں۔

شام کو یہ فقیر کہیں سے مانگ تانگ کر مٹی کے دو دئیے اور سرسوں کا تیل لے آیا اور پیر کڑک شاہ کی قبر کے سرہانے اور پائنتی چراغ روشن کردئیے۔ رات کو پچھلے پہرکبھی کبھی اس مزار سے اللہ ہو کا مست نعرہ سنائی دے جاتا۔

چھ مہینے گزرنے نہ پائے تھے کہ یہ چودہ مکان بن کر تیار ہو گئے۔ یہ سب کے سب دومنزلہ اور قریب قریب ایک ہی وضع کے تھے۔ سات ایک طرف اور سات دوسری طرف۔ بیچ میں چوڑی چکلی سڑک تھی۔ ہر ایک مکان کے نیچے چار چار دکانیں تھیں۔ مکان کی بالائی منزل میں سڑک کے رخ وسیع برآمدہ تھا۔ اس کے آگے بیٹھنے کے لئے کشتی نما نشین بنائی گئی تھی ۔ جس کے دونوں سروں پر یا تو سنگ مرمر کے مور رقص کر تے ہو ئے بنائے گئے تھے اور یا جل پریوں کے مجسمے تراشے گئے تھے ، جن کا آ دھا دھڑ مچھلی کا اور آ د ھا انسان کا تھا ۔ برآ مدہ کے پیچھے جو بڑا کمرہ بیٹھنے کے لیے تھا۔۔