SIZE
3 / 9

ان عورتوں کے لئے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا ۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس سے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا۔ کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے الو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گاو ¿ں تھے۔ کسی کا فیصلہ بھی یہاں سے دو ڈھائی میل سے کم نہ تھا۔ ان گاو ¿ں کے بسنے والے کسان دن کے وقت کھیتی باڑی کرتے، یا یونہی پھرتے پھراتے ادھر نکل آتے ورنہ عام طور پر اس شہر خموشاں میں آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ بعض اوقات روز روشن ہی میں گیدڑ اس علاقے میں پھرتے دیکھے گئے تھے۔

پانچ سو کچھ اوپر بیسواو ¿ میں سے صرف چودہ ایسی تھیں جو اپنے عشاق کی وابستگی یا خود اپنی دلبستگی یا کسی اور وجہ سے شہر کے قریب آزادانہ رہنے پر مجبور تھیں اور اپنے دولت مند چاہنے والوں کی مستقل مالی سرپرستی کے بھروسے بادل نا خواستہ اس علاقہ میں رہنے پر آمادہ ہو گئی تھیں ورنہ باقی عورتوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ یا تو اسی شہر کے ہوٹلوں کو اپنا مسکن بنائیں گی یا بظاہر پارسائی کا جامہ پہن کرشہر کے شریف محلوں کی کونوں کھدروں میں جا چھپیں گی یا پھر اس شہر کو چھوڑ کر کہیں اور نکل جائیں گی۔

یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں ۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے ‘ ان کے دام انہیں اچھے وصول ہو گئے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے اس کی مالی امداد کر نے کی لئے تیا ر تھے۔چنا نچہ انہوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھانی ۔ ایک اونچی اور ہموار جگہ جو ٹوٹی پھوٹی قبروں سے ہٹ کر تھی ‘منتخب کی گئی زمین کے قطعے صاف کرائے اور چابک دست نقشہ نویسوں سے مکان کے نقشے بنوائے گئے اور چند ہی روز میں تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔

دن بھر اینٹ ‘ مٹی ‘چونا ‘ شہتیر ‘گارڈر اور دوسرا عمارتی سامان گاڑیوں‘چھکڑوں ‘خچروں ‘گدھوں اور انسانوں پر لد کر اس بستی میں آ تا اور منشی صاحب حساب کتاب کی کاپیا ں بغلوں میں دبائے انہیں گنواتے اور کاپیوں میں درج کرتے میر صاحب معماروں کو کام کے متعلق ہدایات دیتے ۔ معمار مزدوروں کو ڈانٹتے ڈپتے مزدور ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ۔ مزدور نیوں کو چلا چلا کر پکارتے اور اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بلاتے ۔ غرض سارا دن ایک شور ایک ہنگامہ رہتا ۔ اور سارا دن آ س پاس کے گاو ¿ں کے دیہاتی اپنے کھیتوں میں اور دیہاتنیں اپنے گھروں میں ہوا کے جھو نکوں کے ساتھ دور سے آ تی ہوئی کھٹ کھٹ کی دھیمی آ وازیں سنتی رہتیں ۔

اس بستی کے کھنڈروں میں ایک جگہ مسجدکے آ ثار تھے اور اس کے پاس ہی ایک کنواں تھا جو بند پڑا تھا ۔ راج مزدوروں نے کچھ تو پانی حاصل کرنے اور بیٹھ کر سستانے کی غرض سے ‘ اور کچھ ثواب کمانے اور اپنے نمازی بھائیوںکی عبادت گزاری کے خیال سے ‘سب سے پہلے اس کی مرمت کی چونکہ یہ فائدہ بخش اور ثواب کا کام تھا۔ اس لیے کسی نے کچھ اعتراض نہ کیا چنانچہ دو تین روز میں مسجد تیار ہو گئی۔

دن کو بارہ بجے ‘جیسے ہی کھانا کھانے کی چھٹی ہوئی دو ڈھائی سو راج‘ مزدور ‘ میر عمارت ‘ منشی اور ان بیسواو ¿ں کے رشتے دار یا کارندے جو تعمیر کی نگرانی پر مامور تھے‘ اس مسجد کے آ س پاس جمع ہو جاتے اور اچھا خاصا میلہ سا لگ جاتا ۔

ایک دن ایک دیہاتی بڑھیا جو پاس کے کسی گاو ¿ں میں رہتی تھی اور اس بستی کی خبر سن کر آ گئی ۔ اس کے ساتھ ایک خورد سال لڑکا تھا ۔ دونوں نے مسجد کے قریب ایک درخت کے نیچے گھٹیا سگریٹ ، بیڑی ،چنے اور گڑ کی بنی ہوئی مٹھائیوں کا خوانچہ لگا دیا ۔ بڑھیا کو آ ئے ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک بوڑھا کسان کہیں سے ایک مٹکا اٹھا لایا اور کنویں کے پاس اینٹوں کا ایک چھو ٹا سا چبوترابنایا، پیسے کے دو دو شکر کے شربت کے گلاس بیچنے لگا ۔ ایک کنجڑے کو جو خبر ہوئی وہ ایک ٹوکرے میں خربوزے بھر کر لے آ یا اور خوانچہ والی بڑھیا کے پاس بیٹھ کر لے لو خربوزے ، شہد سے میٹھے خربوزے ! کی صدا لگانے لگا ۔ ایک شخص نے کیا کیا ، گھر سے سری پائے پکا کر دیگچی میں رکھا، خوانچہ میں لگا،تھوڑی سی روٹیاں مٹی کے دو تین پیالے اور ٹین کا ایک گلاس لے کے آ موجود ہو ا اور اسی بستی کے کارکنوں کو جنگل میں گھر کی ہنڈیا کا مزا چکھانے لگا۔