SIZE
3 / 7

نصرت بیگم تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کے حصار میں نڈھال سی لیٹی ہوئی تھیں . تیسرا بیٹا اپنی نی نویلی دلہن کو اس کے میکے چھوڑنے گیا ہوا تھا . بڑی دونوں بہوئیں کچن میں جتی ہوئی تھیں جبکہ ان کے بچے پھوپھیوں کے بے دام غلام بنے ان کی خدمت کر رہے تھے اور ماؤں اور ماموؤں کی گفتگو سننے میں مصروف تھے .

" ارے بس احمد ! میں بھی اگر تمہاری بیویوں جیسی ہوتی تو کہاں کچھ بچنا تھا . نہ بیٹے لائق فائق ہوتے نہ گھر بار کا کچھ بچتا ہے . یہ تو مجھے ہی پتا ہے کے عاشر کے والد کے بعد میں نے کیسے زندگی گزاری ہے ."

وہ ترپ کا پتا پھینک کر رونے میں مصروف ہو گئیں باقی دونوں بہنوں نے اور ماں نے پورا پورا ساتھ دیا . نتیجتا دونوں بھائی دائیں بائیں بیٹھ کر دلاسا دینے لگے تیسرا پیچھے سے آ کر گردن میں بازو ڈال کر کھڑا ہو گیا .

" اسجد ! تم تو سسرال گئے تھے ." بیک وقت استفسار ہوا .

" وہ باجی ١ مجھے اماں نے بتا دیا تھا کے آپ لوگ آ رہے ہیں تو ندا کو اندر کر کے میں واپس لوٹ آیا ."

" ڈائن ہے پوری ' اپنے علاوہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی اپنے بھائیوں کو بھی نہیں . سوچا تھا کیا پتا اسجد اور ندا کو ہمارے والے حالات کا سامنا کرنا پڑے مگر دیکھا وہی چالیں شروع ہو گئیں ماں بیٹیوں کی ." وہ دیورانی جیٹھانی کچن میں دعوت کی تیاری کرتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھیں .

" بھابھی سچ میں میں تو اماں پر حیران ہوں .اچھی بحالی ہوتی ہیں کھاتی پیتی ، خوش باش ' تندرست ' جیسے ہی بیٹیاں آتی ہیں تو کمزور اور نڈھال سی دکھتی ہیں . "