SIZE
3 / 7

" میری ساس ہیں یا چلتا پھرتا ویلفیئرٹرسٹ۔۔۔۔ ہر وقت فلاحی کاموں میں مصروف ۔" خوشی نے سوچا۔ وہ گم صم سی امان کی سکے پیچھے کھڑی رہ گئی۔

" خوشی۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ ایک کپ چائے کا اور ہو جائے۔۔۔۔ ذرا جلدی۔ مجھے اور پاپا کو اب نکلنا ہے۔" امان کی آواز پر وہ کچن کی طرف مزید چاۓ لینے بھاگی۔ ویسے تو اس کی ساس ہمیشہ سسرجی کو ناشتا کرا کر اپنے کاموں کے لیے باہر نکلتیں ' لیکن آج شاید انہیں جلدی جانا تھا۔ اس لیے خوشی کو ان کا ناشتا بھی تیار کرنا پڑا۔

خورشیدہ اشتیاق کے دو ہی بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا امان اور چھوٹی بیٹی ثوبیہ۔ جس کی شادی کو دو سال ہوگئے تھے۔ وہ بھائی کی شادی میں شرکت کرنے شوہر کے ساتھ پاکستان آئی ہوئی تھی۔ ایک مہینہ شادی کی گہما گہمی میں پلک جھپکتے گزر گیا۔ وہ اب کینیڈا واپس جا چکی تھی۔

امان ایک غیر ملکی بینک میں وی پی کے عہدے پر فائض تھا۔ اچھی تنخواہ کے ساتھ مراعات ملی ہوئی تھیں۔ اشتیاق انور نے سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ادبی ادارے کے اکاؤنٹس کا کام سنبھال لیا۔ وہ اس عمر میں بھی صحت مند اور چاق و چوبند تھے' اس پر اتنے سالوں کی مصروفیت کے بعد ایک دم سے در آنے والی فراغت' چند دنوں میں مل ہی گھر بیٹھ کر گھبرا اٹھے۔ دوست کے توسط سے اس نوکری کی آفر ہوئی۔ انہوں

نے غنیمت جانا۔ امان باپ کو ان کے آفس چھوڑ کر اپنے بینک نکل جاتا۔

خوش بخت شادی کے بعد خوش تھی ۔ اسے امان بہت چاہنے والا' نرم مزاج اور حساس طبیعت کا انسان لگا یہ اور بات ہے کہ وہ شوہر سے ابھی تک بے تکلف

نہ ہو پائی۔ جب کہ امان کی بے تکلفی۔۔۔۔ لگتا تھا وہ اس کی بہت پرانی ساتھی ہو۔ اشتیاق احمد بھی خوشی کو ثوبیہ سے کم نہ جانتے۔ جب بھی افس سے واپس اتے اس کے لیے ایک مزیدارسی چاکلیٹ لاتے۔ بظاہر زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔ گویا حالات اس خاندان کے موافق جا رہے تھے۔

سلمیٰ بانو بیٹی کی اونچی قسمت پر اسے سسرال والوں سے بنا کر رکھنے کی تلقین کرتیں۔ انہیں بہو کے معاملے میں کچھ اچھا تجربہ نہ ہو سکا ۔ البتہ داماد بہت شاندار تھا۔

بہو۔۔۔۔۔ عميمه انتہائی منہ پھٹ اور فضول خرچی لڑکی نکلی۔ سلمیٰ غصے میں کم نہ تھیں ۔ یوں ائے دن کے

دنگل و فساد شروع ہو گئے۔ ارتضیٰ ماں اور بیوی کے بیچ میں پھنس کر رہ گیا۔

" کس کی سنوں۔۔۔۔۔ کس کی نہ سنوں؟" کبھی کبھی وہ ہر وقت کی چاؤں چاؤں سے گھبرا کر چیخ اٹھتا۔ اس کے بعد پچھتاتا۔ بیوی کی آنکھوں میں آۓ آنسو برداشت ہوتے۔۔۔۔ نہ ہی ماں کا دل دکھا کر وہ سکون سے سو پاتا۔ ارتضیٰ نے مجبورا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنا شروع کر دیا۔ رات گئے لوٹتا جب دونوں سو چکی ہوتیں۔ بیٹے کو خود سے دور جاتا دیکھ کر سلمیٰ بانو بیمار رہنے لگیں۔

خوشی کو سسرال میں بظاہر کوئی مسئلہ نہ تھا' مگر میکے سے ملنے والی ایسی اطلاعات اسے ڈرا دیتیں- وہ صلح جو۔۔۔۔۔ نرم مزاج کی لڑک گھرکا ماحول میکے جیسا دیکھنے کی خواہش مند نہ تھی۔ اسی لیے لب سے بغیر اعتراض کیے خاموشی سے گھر کے کاموں میں الکجی رہتی۔ ہاں مگر کبھی کبھی اپنی ساس کی عادتوں پر الجھتی۔

یہ حقیقت تھی کہ اگر وہ سسرال میں کسی کو مکمل طور پر سمجھ نہ پائی تووہ " خورشید اشتیاق " کی شخصیت تھی۔ کبھی کبھی وہ اسے بہت اچھی لگتیں' کبھی ان کی محبت ڈرامہ دکھائی دیتی۔ وہ کنفیوز ہو جاتی۔ یوں دل ہی دل میں ان کی اچھائی یا برائی کی جانچ کرنے پر تل گئی۔

" اوہ ۔۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔۔۔ جلنے کی مہک سے اس کی آنکھ کھلی تو اس نے بالوں کو سمیٹتے ہوئے کچن کر طرف دوڑ لگا دی۔ ساس کو قیمے کی پتیلی میں چمچ چلاتے دیکھا۔