SIZE
2 / 7

" میری ساس ہیں یا چلتا پھرتا ویلفیئرٹرسٹ۔۔۔۔ ہر وقت فلاحی کاموں میں مصروف ۔" خوشی نے سوچا۔ وہ گم صم سی امان کی سکے پیچھے کھڑی رہ گئی۔

" خوشی۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ ایک کپ چائے کا اور ہو جائے۔۔۔۔ ذرا جلدی۔ مجھے اور پاپا کو اب نکلنا ہے۔" امان کی آواز پر وہ کچن کی طرف مزید چاۓ لینے بھاگی۔ ویسے تو اس کی ساس ہمیشہ سسرجی کو ناشتا کرا کر اپنےتاہم میں نے اس کی تربیت ایسی سخت کی ہے کہ وہ ہمیشہ سے بڑوں کا احترام کرے گی۔ آپ کو ان شاء اللہ اس کی طرف سے شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"

سلمیٰ بہو کے طنز پر تلملا اٹھیں۔ اسے سنانے کے ساتھ ساتھ بیٹی کا دفاع بھی کیا۔

" بھئی۔۔۔۔ اپنی بہو کے معاملات میں بلاوجہ ٹانگ اڑانے کی خواہش مند نہیں۔ دلہن سیاہ کریں یا سفید' اب یہ ان کا گھر ہے۔ اپنا سمجھیں تو نفع نہیں تو نقصان اٹھائیں گی۔" وہ مسکرا کر مہمانوں کو اسکوائش پیش کرتی ہوئی خوشی کو دیکھتے ہوۓمتانت سے بولیں۔

" اس دور میں ایسی ساس'جو اپنی سلطنت بہو کو دینے میں لمحے بھر نہ سوچیں۔۔۔۔ کمال ہو گیا بھئی۔"

عمیمہ نے ان کی بات کو زوردار طریقے سے ہاتھ ہلا کر سراہا تو ان سب نے

تائید میں سر ہلا دیا۔ سواۓ خوشی کے جو اناری اور سبز رنگ کے لباس میں دہک رہی تھی۔ سلمیٰ الگ بہو کی باتوں پر بیٹھی کڑھتی رہی۔

" نہیں۔۔۔۔ بھئی۔۔۔۔۔ اس کا کریڈٹ خوشی کو بھی جاتا ہے۔ ہماری دلہن بہت سمجھ دار اور معصوم ہے۔ ہمیں اس نے کبھی شکایت کا موقع ہی نہیں دیا۔" خورشیده نے کھلے دل سے اپنی بہوکی تعریف کی۔ امان نے مسکرا کر پہلے فخر سے ماں کو دیکھا' پھر جا کر خوشی کے برابرمیں کھڑا ہوگیا جو سب باتوں کو نظرانداز کیے مہمانوں کی مدارات میں مصروف ہوگئی۔ امان کی ناشتے کے لیے پکار پر وہ خیالات کی دنیا سے باہر آئی۔ تیزی سے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھی۔

" امان۔۔۔۔ مما کہاں گئیں؟" اپنے سسراور شوہر کے سامنے جلدی جلدی ناشتا لگاتے ہوئے اس نے سوال کیا۔

" خوشی بیٹا۔۔۔۔ وہ جو ہماری کام والی شریفاں مائی ہے نا' اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ اس بے چاری کے پاس تو پیسہ کوڑی ہے نہیں۔ روتی گاتی ان کے پاس آئی کہ کچھ کردیں تو بیٹی کو سادگی سے بیاہا جا سکے۔ ان کا تو وه حال " سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" بس وہ نکل پڑیں۔ انہون نے محلے بھر کی خواتین کے پاس جا جا کراس کی مدد کے لیے مہم کا آغاز کیا ہوا ہے۔"

اشتیاق انور نے مسکرا کر بہوکوبتاتے ہوۓ بیوی کی تعریف کی تو وہ حیران رہ گئی۔ اس کا سسرال جس علاقے میں تھا' وہ ایک ہائی سوسائٹی کہلاتی تھی۔ یہاں کے رہائشی نہ بلاوجہ کسی کی زندگی مداخلت کرتے نہ ہی کسی سے ایسی توقع رکھتے۔ البتہ خوشی اور غمی میں گھنٹہ بھر کو شرکت ضرور کرتے۔ ایسی جگہ گھر گھر جا کر کام کرنے والی مائی کے لیے امداد اکٹھی کرنا بڑی بات تھی۔