SIZE
4 / 7

دیر سے ہی سہی اس کو محلے والوں کے تعاون سے ادرا ک تو

ہوا۔ گھر میں، اماں اور آل اولاد کے درمیان ایک میٹنگ بٹھائی گئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ جمیل میاں کی پڑھائی لکھائی جو دراصل ساڑھے بائیس ہے اور اس کی آڑ میں بدمعاش دوستوں کی محفل سجتی ہے ۔ تو اس پڑھائی لکھائی کو بند کر کے ملازمت ڈھونڈ نے پر زور دیا جائے۔ جمیل میاں کے گھر آمد پر ابا جی نے انتہائی سختی کے ساتھ فیصلہ صادر کر دیا۔

”اب یوں نہ چلے گا برخوردار ............ پڑھنا لکھنا نہیں ہے تو پھر کام دهندا تو ڈھوڈنا پڑے گا جوان جہاں لڑکا گھر میں مفت کی روٹیاں توڑتا اچھا نہیں لگتا۔" ابا جی نے خوب گرج چمک کے ساتھ فیصلہ سنایا۔ برخوردار نے سر تسلیم خم کیا ۔ اور دھندا ہی ڈھونڈ لیا۔ اور جو دھندہ ڈھونڈا وہ بھی کیا خوب ڈھونڈا۔

فیس بکی دنیا سے جمیل میاں اور ان کے یاروں کی دوستی درینہ اور پرانی تھی۔ بیٹھے بٹھائے ان کو دھندا مل گیا۔ سب سے آسان شکار اسے لڑکیاں لگیں۔ جو ہر گھڑی گھر اور اپنے اردگرد کی لمحہ نہ لمحہ بدلتی صورت حال کی خبرفیسں بک پر نشر کرتی رہتی تھیں۔

جمیل میاں اور اس کے دوستوں نے کئی زنانہ ناموں سے جھوٹے فیس بک اکاونٹ بنائے ۔ اور کئی لڑکیوں کو دوستی کی درخواست بھیج دی۔ جس میں سے اکثریت نے قبول بھی کر لی ۔ جمیل میاں اور ان کے دوست دن رات موبائل پر ان لڑکیوں کے روزمره کے معمول کی تفصیلات پر نظر رکھتے۔ ایک لڑکی نے اپنی کچھ سہیلیوں کو ٹیگ کیا اور آؤٹنگ پر جانے کی بابت دریافت کیا۔ سہیلیوں نے خوب محفل جمائی۔ خوب باتیں ہوئیں۔ آخر میں فیصلہ ہوا کہ کس وقت ہیں۔ اور میں بے چینی سے ان دونوں کا انتظار کر رہی ہوں۔ ہمارے جانور صرف محلے کے ہی نہیں بلکہ علاقے کے بھی سب سے بڑے جانور کہلاتے ہیں۔"

" یہ بڑا ٹینٹ لگتا ہے ہمارے جانوروں کے لیے۔۔۔۔" یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کومل نے باتوں باتوں میں بتا ڈالی تھیں۔ دوستوں کے ساتھ کومل کا وقت اچھا گزر گیا۔ انتظار کی کوفت زیادہ نہ ہوئی۔

اماں ' ابا جمیل میاں سے بے حد خوش تھے۔ مہینے کے دس پندرہ ہزار جو ہاتھ میں لا کر رکھ دیتا تھا۔ کھوٹا سکہ چل نکلا تھا۔ مگر کس طرف کو چل نکلا تھا۔ اماں' ابا کے وہم و گمان میں نہ تھا۔

جمیل اور اس کے ساتھیوں نے رفتہ رفتہ کئی وارداتیں کر ڈالیں۔ ایک لڑکی نے خبر نشر کی کہ اس دفعہ ان کا خاندان شہر سے باہر جا رہا ہے۔ دوستوں رشتہ داروں سے گپ کے دوران وہ اپنے علاقے کا نام بھی بتا بیٹھیں۔ جمیل عرف جمیلہ جھٹ سے اسے میسج کر بیٹھا نئے سفر کی نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ باتوں باتوں میں گھر کا پتا بھی معلوم کرلیا۔ لڑکی کے خاندان کے شہر سے رخصت ہوتے ہی اگلے دن اس گھر میں واردات ہو گئی۔

اماں ابا کے ہاتھ اس بار معمول سے زیادہ پیسے آ گئے۔ ابا جی سمجھے برخورداری صحیح راہ پر چل نکلے۔ اٹھتے بیٹھتے جمیل میاں کی تعریف ہوئی۔ اماں صدقے قربان جائیں۔ بھیا بھی مطمئن ہو چکے تھے ویسے بھی اب وہ سب شادی شدہ تھے اور اپنی اپنی زندگیوں میں مشغول و مصروف ہو چکے تھے۔

عیدالاضحیٰ کی آمد آمد تھی۔ ہرطرف گائے بکرے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ جمیل اور اس کے ساتھیوں نے انوکھا پلان بنایا۔ اس بار چوری گائے بکروں کی ہو گی۔ پلان اچھا تھا مگر خطرناک تھا۔ گاۓ بکرے کوئی سامان تھوڑی تھے جو چوں چرا کیے بنا چوری ہو جاتے اور انہیں چرانے کے لیے ایک بہترین منصوبے اور مکمل انتظام کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے مرحلے میں جمیل نے فیس بک کا سروے کیا۔ اور ان تمام لوگوں

کو جمیلہ کے نام سے دعوت بھیجی جنہیں قربانی کا شوق ھد سے سوا تھا اکثر نے بھولی بھالی جمیلہ کی دعوت قبول کرلی ۔ کومل بھی اس اکثریتی گروہ میں شامل تھی۔

کومل کے بھائی خوب صورت اور تنومند بیلوں کی جوڑی منڈی سے لے کر آئے تھے۔ ایک سفید اور دوسرا چتکبرا۔ دونوں ہی بہترین نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ انسپکٹر فاروق نے گھر کے باہر ٹینٹ لگوایا۔ دونوں بیلوں کو اس کے اندر باندھا۔ اور سپاہی رشید کو پہرے داری پر باہر بٹھا دیا۔

کومل بی بی بڑی خوش تھیں۔ کتنی ہی تصوریں دونوں بیلوں کی فیس بک پر اپ لوڈ کر ڈالیں۔ کئی دوستوں نے بیلوں کی تعریفوں میں زمین و آسمان کی قلابے ملا ڈالے۔ کومل کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جمیل نے بیلوں کی تصاویر دیکھیں تو منہ سے رال ٹپکنے گی۔ جھٹ سے کومل سے رابطہ کیا۔ خیر خیریت دریافت کی۔ اور بیلوں کی تعریف میں رطب اللسان ہوئی۔ باتوں کی شوقین کومل کو جمیلہ سے بات کرنے میں مزا آ نے لگا۔ باتوں باتوں میں جمیلہ نے کومل کے گھر کا پتا بھی حاصل کر لیا۔ اب انہیں انتظار اس وقت کا تھا جب

انہیں موقع ملے اور وہ کارروائی شروع کریں۔