SIZE
4 / 8

" حد میں رہ دردانہ! حد میں ورنہ ٹھیک نہیں ہو گا۔" غضنفر چچا ایک بار پھر میدان میں اترے۔

" ہاں تو کیا کر لے گا۔ میرا لونگ آج کے آج نہ ملا تو صاف کہہ دیتی ہوں امی۔ تم اکیلی بیٹا بیاہنے چلی جانا۔ میں اور میرا میاں بارات میں شریک نہیں ہوں گے۔" لو جی دو مہینے کی محنت گئی تیل لینے۔

میں تو کہتی ہوں یہ سارا قصور لونگ کا تھا جو پھڑک کر ناک سے گر گیا۔ کیا تھا آج کے دن ٹکا رہتا۔ گھر میں جنگ عظیم چہارم شروع کروا دی۔

" دردانہ حوصلے سے کام لے بیٹا۔ رضیہ سارے گھر میں جھاڑ ولگا رہی ہے نا ابھی مل جائے گا۔ دادی نے تسلی دی۔ اب اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں بے چاری۔ پھپھو کو تو کچھ بھی کہتا اس وقت بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔

" کہاں سے لاؤں حوصلہ۔ میرا سات ہیروں والا لونگ ۔ شادی کے دس سالوں میں بس ایک یہی تحفہ دیا تھا آپ کے داماد نے۔" سینے پر ہاتھ مارتے مون سون دوباره شروع ہوگئی۔ " پوچھ لوسامنے بیٹھے ہیں۔" لوبھئی آ گئی پوپھا کی شامت۔

" اللہ اپنی جانب سے اور بھی بہت کچھ دے گا۔ پریشان نہ ہو۔" دادی نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’اللہ ہی دے گا بس ، انہوں نے تو قسم کھا رکھی ہے ۔ آپ کے سامنے ہی ہے کس حال میں گزارا کرتی ہوں۔ اب بھی، ہر کوئی آپ کی بہوؤں کی طرح عیش تو کرتا نہیں، نہ ہی سارے مرد آپ کے بیٹوں جیسے زن مرید ہوتے ہیں۔" سن لو۔ ایک وار میں میدان کیسے صاف کیا جاتا ہے تو کوئی ہماری دردانہ پھپھو سے سیکھے۔ اماں نے گھور کرابا کو دیکھا تو ابا چشمه درست کرتے دوسری طرف دیکھنے لگے۔ کچھ ایسی ہې حالت رابعہ چچی کی تھی جو سردار چچا کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ وجاہت پھوپھا الگ خجالت سے بیٹھے تھے۔ پورے سسرال کے سامنے عزت افزائی جو ہو رہی تھی۔

’’ دیکھ تو پھر شروع ہوگئی۔ کب سے ٹرٹر کیے جا رہی ہے۔ کبھی لونگ کا رونا کبھی زن مریدی کا رونا۔ میں کہہ دیتا ہوں باز آ جا۔غضنفر چچا کا میٹر ہردو منٹ بعد گھوم جاتا تھا۔ حالانکہ پتا بھی تھا کہ یہ پھڈا آج کے

دن انہیں ہی مہنگا پڑے گا۔ دو گھنٹے بعد بارات کو نکلنا ہے اب اس طرح پھولے منہ سے وہ اگر ساتھ چل بھی پڑیں گی تو پورے خاندان اور ان کے سسرال کے سوالوں کے جواب کون دے گا اور ان کی وہ خزانٹ ساس جو سب کے دانت گنے بغیر چین سے نہیں بیٹھتیں۔ پر انہیں سینگ ضرور پھنسانے ہیں۔

" کیوں آجاؤں باز میں؟ تیرا د یا کھاتی ہوں۔ تجھ سے تو کبھی اتنا نہ ہوا بہن کو عید بقرعید پر جوڑا ہی خرید کردے دے۔" استغفراللہ۔ پھپھو بھی نا ویسے دبا کے جھوٹ بولتی ہیں۔ ابھی عید میں تین ہفتے باقی تھے اور دادی سمیت سب بھائی الگ الگ جا کر عیدی دے آئے تھے۔ ہر سال بقرہ عید پر دادی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک ران بجھواتی تھیں۔ رضیہ پھوپھو نے تو کبھی مین میکھ نہیں نکالی پر دردانہ پھپھو کا موڈ ہمیشہ ہی خراب ہو جاتا ۔ اب اسی روٹھے منانے میں پھپھو کی خواہش پر غضنفر چچا نے گائے کے ایک حصے کے پیسے پکڑا دیے تھے۔

" دردانہ اللہ کو مان بیٹی۔ تو نے گائے میں حصہ ڈالا تو غضنفر نے ہی وہ پیسے د یے تھے، غضنفر نے ہی وہ پیسے دیے تھے۔" غضنفر چچا بولنے

ہی والے تھے کہ دادی نے کہہ دیا۔ وہ ہونٹ بھینچے خاموش بیٹھے رہے پر بڑی جتاتی نظروں سے پھپھو کی طرف دیکھا کہ اب تو اونٹ پہاڑ کے نیچے آ ہی گیا سمجھو' پر یہیں وہ کھا گئے مات۔ انہیں پھپھو کی جری

صلاحیتوں کا دراصل ٹھیک سے علم ہی نہ تھا۔