SIZE
5 / 6

" غلطی کردی میں نے تمہیں فائل دے دی۔ خود ہی کہیں سنبھال کے رکھ دیتی۔ اب پتا نہیں چابی کہاں ہوگی۔ باس انتظار میں ہوں گے۔ غصہ بھی ہو رہے ہوں گے۔ یہاں تلاش ہی ختم نہیں ہو رہی۔“ ایک زور دار آواز کے ساتھ اس نے دراز بند کرتے ہوئے کیا۔

" تمہیں پتا ہے عفت۔۔۔۔" چند لمحے توقف کے بعد اس نے اچانک عفت کو مخاطب کیا۔

" اتنی عمر ہوجانے کے باوجود ابھی تک تمهاری شادی کیوں نہیں ہوئی؟ کیونکہ یہ ایک زمہ داری ہے اور تم سے ایک عام سی چابی کی زمہ داری نہیں سنبھالی جاتی تو بھلا گھر اور اس کی چابی کی زمہ داری کیا سنبھلے گی۔

ثانیہ کی کی گئی چوٹ سیدھا عفت کے دل پر پڑی۔ کچھ لمحے کے لیے تو اس کا دراز ٹٹولتا ہاتھ ساکت ہو گیا۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں ثانیہ پر ٹکائے وہ کچھ لمحوں کے لیے تو یہ بھی بھول گئی کہ آخر کیا کررہی تھی اور کرنا کیا تھا۔ جبکہ ثانیہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی اور مزید کہہ رہی تھی۔

" واقعی! الله تعالی بھی بندوں کو دیکھ کر نہیں ذمہ داریاں دیتا ہے۔"

عفت چاہتی تو تھی کہ اسے ایک کرارا سا جواب دے۔ تاہم وہ ایک لفظ بھی کہے بغیر خاموشی سے چابی کی تلاش کی جانب متوجہ ہو گئی۔

بہرحال چابی مل گئی تھی۔ فائل ثانیہ کو دے دی گئی۔ وہ باس کے پاس چلی بھی گئی۔ اس ساری کاروائی میں بمشکل پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ ثانیہ کے کہے الفاظ آفس ٹائم کے بعد بھی اس کے آس پاس ہی گونجتے رہے۔

اس دن اسے مظفر کی بیوی کے دیر سے دروازہ کھولنے پر ذرا کوفت نہیں کی تھی۔

اظفر کی بیوی کے ناروا اور روکھے انداز کا بھی اس نے برا نہیں مانا۔

دونوں چھوٹے بھائیوں کے تلخ لہجوں پر اسے دکھ نہیں ہوا۔

بھتیجے' بھتیجیوں کی بدتمیزیوں پر اس کا دل نہیں کڑھا۔

بیگم علی کی سرد آہوں اور علی احمد کے خاموش انداز نے اسے افسردہ نہیں کیا تھا 'کیونکہ ثانیہ کے الفاظ کی تکلیف کی شدت کم نہیں ہورہی تھی۔

اس رات جب عشاء پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

" اے اللہ تعالی ! مجھ سے چابیاں کھو جاتی ہیں۔ میں بھول جاتی ہوں۔ غیر زمہ دار ہوں۔ میں نے کب انکار کیا ہے اس بات سے۔ اس نے فریاد کی تھی۔ "مگر تو بادشاہ حقیقی ہے' انسانوں اور زمین کے خزانوں کی چابیاں تیرے پاس ہیں میرے نصیب کا تالا ابھی تک سختی سے بند پڑا ہے۔ زنگ آلود ہوچکا ہے۔ مگر تیری الفتاح" (کھولنے والا) صفت ہونے کے آگے تالے کا زنگ آلود ہونا کیا معنی رکھتا ہے اور میرے نصیب کی چابی تیرے پاس سے کیسے کھوسکتی

ہے ! تو تو حفیظ (حفاظت کرنے والا) ہے اور رقیب (بڑا نگہبان) بھی۔۔۔۔ تو بھولتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور نہ تیری ذات غیر زمہ دار ہے۔۔۔۔ اگر ایسا ہوتا۔۔۔۔ تو اتنی بڑی کائنات کا نظام اب تک تلپٹ ہو چکا ہوتا۔"

عفت د عامانگتے مانگتے روتے ہوۓ جائے نماز پرہی سو گئی۔

اگلے دن آفس گئی تو ثانیہ کے وہی طور طریقے تھے۔ اسے اپنی کل کی کسی بات پر کوئی شرمندگی اور افسوس نہیں تھا۔ عفت کو اس کی شرمندگی اور افسوس کی ضرورت بھی نہیں تھی' بلکہ وہ تو اس سے بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شام میں جب وہ گھر پہنچی تو چند اجنبی صورتوں کو ڈرائنگ روم میں موجود پایا۔ بیگم علی کو کھلکھلاتا اور علی احمد کو مسکراتا پایا۔

" یہ وہ لوگ تھے۔۔۔۔ جو پانچ سال پہلے تمہیں دیکھ کر گئے تھے۔" ان لوگوں کے جانے کے بعد بیگم علی نے بتایا۔

" اور اگلے پانچ سالوں کے لیے سوجائیں گے۔۔۔۔!" عفت نے سنجیدگی سے کہا۔

" شش کیسی باتیں کررہی ہوں۔" بیگم علی کا موڈ آج بہت خوش گوار تھا ' سو برا منائے بغیر اسے ٹوکا۔

" پاگل! تاریخ دینے کے لیے کہہ رہے تھے۔"

عفت استعجاب اور بے یقینی کے عالم میں اپنے گھر کے ہر فرد کی شکل دیکھتی رہی۔

" کمال ہے' دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں۔۔۔۔!" وجہ چاہے جو بھی رہی ہو بہرحال اس کی شادی ہونے جا رہی تھی۔ جس دن اس کے آفس میں کارڈ پہنچا اسی دن موبائل پر ثانیہ کی کال آئی۔

" بہت مبارک ہو عفت۔۔۔۔۔"

" ہاں۔۔۔۔ الله تعالی کے بندے تو نافرمان اور بے رحم ہیں۔" اس نے بے تاثر لہجے میں کہا تھا۔ بڑی بڑی باتیں کتنے آرام سے کہہ جاتے ہیں۔ مگر وہ رحٰمن بھی ہے اور رحیم بھی۔۔۔۔"

" ائی ایم سوری! "ثانیہ سمجھ گئی کہ اشاره اسی کی طرف ہے لہذا شرمندہ سے لہجے میں کہا۔

" مجھے اس طرح سے نہیں کہنا چاہیے تھا۔"