SIZE
1 / 6

" مجھ سے چابیاں نہیں سنبھلتیں "عفت على نے بے بسی سے کہا تھا۔ " کھو جاتی ہیں۔"

" ہاں۔۔۔۔۔ واقعی۔۔۔۔۔" اس کی قریبی' اکلوتی اور بچپن کی دوست ثانیہ عابد نے سنا تو ہنسی۔

" اگر چابیاں کھونے کے ریکارڈ مرتب کیے جاتےتو سارے اعزازات تمہارے ہی پاس ہوتے۔"

" میں کیا کروں ثانی!" عفت علی نے پہلے سے بھی زیادہ بے بس لہجے میں کہا۔

" میں کتنی۔۔۔۔ کوشش کرتی ہوں کہ اپنے پاس موجود چابیوں کی حفاظت کر سکوں۔ انہیں سنبھال کر رکھ سکوں۔۔۔۔۔ اور میں احتیاط سے انہیں رکھ بھی دیتی ہوں۔ مگر پھر مجھے یاد کرنے پر بھی یاد نہیں آتا کہ میں نے کہاں رکھی تھیں۔" " یعنی اتنی حفاظت سے رکھتی ہو۔۔۔۔۔ کہ وہ بالکل ہی محفوظ ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔

تم چابی رکھ کر بھول ہی جاتی ہو۔۔۔۔"

" ہاں۔۔۔۔۔" عفت نے ہچکچاتے ہوۓ اعتراف کیا۔

" تمہارا مسئلہ عدم توجہی ہے۔" ثانیہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔" ہر کام کے لیے یکسوئی اور پوری توجہ چاہیے ہوتی ہے۔"

" تمہیں پتا ہے میں ہر کام توجہ اور یکسوئی سے کرنے کی کوشش کرتی ہوں' مگر یہ چابیاں سنبھالنا۔۔۔۔" وہ روہانسی ہو گئی۔

" یار ! کام کوئی بھی مشکل نہیں ہوتا۔" ثانیہ نے لاپرواہی سے کہا۔ " ہاں ۔۔۔۔ آدمی مشکل بنا دیتا ہے تو وہ ضرور مشکل ہو جاتا ہے۔ جان بوجھ کر تو کوئی بھی اپنے لیے مشکلات نہیں کھڑی کرنا چاہتا' ثانیہ مزید کہہ رہی تھی۔

" اور میں نے تم سے کئی بار کہا ہے کہ نہار منہ روزانہ سات بادام کھایا کرو تاکہ یادداشت بہترہو۔"

" میری یادداشت خراب نہیں ہے۔ " عفت نے قدرے برا مان کر کہا۔

" چابیاں رکھ کر بھول جانا' یاداشت کی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔" ثانیہ نے کندھے اچکائے۔

عفت نے اس کے حتمی انداز پر اس سے بحث نہیں کی تھی۔ تاہم اس کا انداز اسے برا ضرور لگا تھا۔

اس سے چابیاں کھو جاتی تھیں' یہ کوئی اب کی بات ہیں ۔ وہ چھٹی جماعت میں آئی تھی' جب علی احمد صاحب نے اسے کپڑوں کے لیے لکڑی کی الماری بنوا کر دی، جس کے دروازے مقناطیسی کشش کے تحت بند ہوتے تھے مگر ان میں قفل بھی لگے تھے اور اس میں چابیاں بھی لگی تھیں۔

ہر بار جب وہ کپڑے رکھنے یا نکالنے کے لیے الماری کھولتی تو دروازہ بند کرنے کے بعد لازمی لاک میں چابی بھی گھما دیتی۔ اور اگر یہ حرکت چابی گھمانے تک محدود رہتی تو کوئی بات نہیں تھی ۔ وہ تو بے دھیانی میں چابی بھی نکال دیتی تھی۔ اور پھر کہیں رکھ کر بھول بھی جاتی اور پھر جب الماری کھولنے کی ضرورت پڑتی تو تلاش بسیار کے بعد بھی چابی نہ مل پاتی۔ نتیجنا لاک توڑنا پڑتا۔ اس کے بعد تبدیل بھی کرنا پڑتا۔ تبدیل ہوتے لاک کے ساتھ چابی بھی تبدیل ہو جاتی۔ اورنئی چابی کے ساتھ بھی وہی ہوتا۔