SIZE
3 / 9

" سن لیا اس کی سوچ کا انداز' یہ سیکھنے جاتی ہے مدرسے ' اگر اکبر کو پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" اب ان کی گولہ باری کا رخ اماں کی طرف تھا۔ وہ پہلے ہی سکتے کے عالم میں ایسے بیٹھی تھیں جیسے ابھی ابھی منکر نکیر نے قبر میں اٹھا کر بٹھایا ہو۔ اوپر سے برابر میں بسنے والے سمدھیانے خطرہ۔

" اس سے پہلے کہ یہ غزل اور نغمہ کی سوچوں کا رنگ پہن لے' چلتا کریں اس گھر سے۔۔۔۔۔ شام کو کریں ابا سے بات کہ وہ جلد ہی تایا جان سے تاریخ طے کریں اور فارغ ہوں اس سے۔۔۔۔۔؟

بھائی جان نے شدید لفظ ہونٹوں میں روک لیا تھا۔ ان کے غصے کو جویریہ کی آنکھوں سے بہتا پانی بھی کم نہ کر سکا تھا۔ بلکہ دہکانے کے لیے بھابھی جان ان کے پیچھے آن کھڑی ہوئیں۔ وہ ادا سے ہادیہ' جویریہ اور اماں کو مجرم بنا دیکھ رہی تھیں۔

" میں تو پہلے ہی کہتی تھی' بہت تیز ہیں یہ' اپنی شکلوں کی طرح۔“ انہوں نے ہاتھ نچاتے ہوئے بات شروع کی۔ " دس منٹوں میں اینٹوں والا صحن چمکا' صفائی ستھرائی' گھر' باورچی خانہ سمیٹ سماٹ گھس جاتی ہے اسٹور میں' اتنی گرمی میں میرا تو صحن میں دل الٹتا ہے اور یہ۔۔۔۔۔" انہوں نے پورا ہاتھ کھول کر اشاره کیا۔

" اسٹور میں بنا بتی' پنکھے کے سارا دن گزار دیتی ہے۔ ہروقت ریڈیو بجتا ہے' عجیب و غریب رسالے پڑھتی ہے' پھر یہ نتیجہ تو نکلنا تھا۔ انہوں نے اپنا رنگین پراندہ جھلا کر پشت پر پھینکا اور تقریر کی ٹون لی۔

" آپ ہی کہتے تھے معصوم بچیاں ہیں میری بہنیں' دیکھ لیا بچپنا ان کا۔۔۔۔۔"

بھائی جان غصے سے ہاپنے لگے' مگر بھابھی کی جانے بلا' وہ حظ اٹھاتی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔

" چند کاغذ پھاڑ دینے سے کیا ہوتا ہے' اسٹور میں جو پورا کتب خانہ تیار ہوگا ' ایک پکڑا گیا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے' یہ چھوٹی کہاں کہاں پہنچا کر آتی ہو گی' ہروقت باہر کے چکر لگتے رہتے ہیں۔۔۔۔"

" کیا مطلب۔۔۔۔ ؟ " بھائی جان کی آنکھیں اور آواز پھر سے پھٹ گئی۔ اور بھی کچھ بکواس لکھ رکھی ہے اس نے۔۔۔۔۔ اس بار بھابھی نے زبان استعمال نہیں کی بلکہ گھٹنا اور گردن مٹکاتی رہیں۔

" اندر جاؤ' جا کر دیکھو اس کی چیزوں میں کیا کیا رکھا ہے۔" بھائی جان کے حکم نامے پر جویریہ ہونٹ کاٹتی نفی میں سرہلاتی رہی۔ جیسے بھابھی کو روکنا چاہتی ہو۔

اماں کی جانب بھی حمایت طلب نگاه اٹھی تھی مگروہاں موت کا سناٹا تھا۔ اپنی جنگ خود ہی لڑنا تھی' ہتھیار ناپید' گواہیاں خلاف' واحد بے ساکھی ہادیہ' جوخود بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔ بہت ہمت مجتمع کر کے جویریہ کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔

" نہیں' نہیں بھائی' اندر کچھ نہیں ہے۔ بس یہی لکھا تھا۔ معافی چاہتی ہوں۔"

" اوہو! دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔" بھابی اسے کندھا مار دروازے سے ہٹاتی

اندر چلی گئیں۔ وہ الٹے پاؤں ان کے پیچھے لپکی تھی مگر بھابی رکنے والی تھیں بھلا! چادریں، کیس ' تکیے الٹ پلٹ' چند صندوقوں کے درمیانی درزوں سے بہت سے رسالے نکلے۔ دری کے نیچے سرہانے کی جگہ رجسٹر بمع قلم دھرا تھا۔

" ارے واہ۔" وہ لہرا کر بولیں۔ " یہاں تو پوری عاشقہ تیار ہے۔"

" بھابھی جان! مہربانی کر کے یہ مجھے دے دیں ' خدا کے لیے رحم کریں۔" وہ منمناتی پیچھے پیچھے آئی تھی۔