SIZE
2 / 9

وہ سوچوں میں گھری سرخ ڈبے کے پاس جا کھڑی ہوئی اور رحیم چاچا کا انتظار کرنے لگی۔ اس نے کئی دن ڈیوٹی دے کر رحیم چاچا کے اوقات یاد کیے تھے۔ کبھی وہ دوپٹے کے پلو سے پسینہ خشک کرتی ' کبھی ہاتھ ہلا کر ہوا جھلتی۔ جولائی کا مہینہ' آگ برساتا سورج' تندوری زمین ۔ رحیم چاچا کی سائیکل کا پہیہ اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ابھی تو ٹھیک سے اطمینان محسوس بھی نہ ہوا تھا کہ کندھے پر رکھے جانے والے ہاتھ نے ساری جان ٹانگوں کے رستے نکال دی۔ وہ پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ اسے تو یہ تک یاد نہیں تھا وہ گھر تک کیسے پہنچی۔

۔ پیکٹ کپکپی کے دوران بغل سے گرا تھا یا پشت سے جھانک رہا تھا۔ وہ تو یہ سوچتی دہلیز تک پہنچی تھی کہ اب باجی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور پھر اس کی سوچوں سے بہت آگے تک ہوا ہے۔

بھائی جان کا چہرہ غضب ناک حد تک سرخ تانبے جیسا ہو رہا تھا۔ وہ قہر آلود نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔اماں پان سروتا تو بھولیں سو بھولیں منہ بند کرنا بھی بھول گئی تھیں ۔ پیکٹ اماں کے قدموں میں پٹخنے کے ساتھ ساتھ ایک چنگھاڑ بھی نکلی تھی۔

" بس یہ کالک ملنی رہ گئی تھی ہمارے چہروں پر۔"

ہادیہ کو تب تک کالک کا مطلب بھی معلوم نہ تھا۔ بہت سوچنے پر یاد آیا کہ خوف سے اچھلی' بغل کھلی' پیکٹ گرا' بھائی جان نے گھورتے ہوۓ اٹھایا۔ ایڈریس پڑھا ۔ بے دردی سے لفافہ پھاڑ کر چند صفحے الٹ پلٹ کر دیکھے اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتا گیا۔ شاید اسے ہی کالک ملنا کہتے ہوں۔ وہ سوچ رہی تھی جب دوسرا جملہ سماعت کو چیرنے لگا۔

" بکواس کرتا تھا ناں' دھیان رکھا کریں ان کا' اتنا ریڈیو کیوں سنتی ہیں' چادریں منہ پر اوڑھ' اوڑھ کرکیوں لیٹتی ہیں۔۔۔۔ وہ جو آپ سمجھتی ہیں ناں' حدیثوں اور کھانا پکانے کی کتابیں پڑھ رہی ہیں' ان کا نتیجہ نکلا ہے یہ۔۔۔۔" وہ کف اڑاتے سیمنٹ تک آۓ اور سبز فرش سے جھک کر پیکٹ اٹھا لایا۔

" پتا ہے اس کے اندر کتنی فحش باتیں لکھی ہیں آپ کی صاجزادی نے۔۔۔۔۔" صفحے پلٹ کر ورق گردانی شروع ہو چکی تھی۔

" معصوم بھولی صورت والی غزل کی زندگی پر اپنے نام کی طرح رات سسکتی اتر رہی تھی' اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس کی والدہ نے ماموں جان سے جائیداد میں اپنا حصہ مانگ لیا تھا ' کیا اپنا حق مانگ لینے پر بچپن کی نسبت بے دردی سے ٹوٹ سکتی ہے' نسبت بھی وہ' جو اس کی سانسوں کے ساتھ کھیل کر جوان ہوئی ہو۔" بھائی جان نے زہر میں بجھی نگاہ جویریہ پر اٹھائی اور چند ورق پھاڑنے کے انداز میں پلٹے۔

" نغمہ' غزل کی عم زاد کسی کے نام کی چادر اوڑھے گنگنا رہی تھی' اس کی سازش ناکام نہیں رہی بلکہ ماموں کی لالچی فطرت کو جتنا بھڑکا سکتی تھی اتنا گرم ضرور کیا' غالبا وہ امروز کی شخصیت کے سحر میں اتنی گرفتار تھی کہ کسی بھی حد کو پار کر سکتی تھی۔ اور امروز وہ کتنا کی لالچی اور بے وفا۔۔۔۔۔" بھائی جان نے غصے میں صفحہ پھاڑ دیا۔"

" بے حیا۔۔۔۔۔" وہ نفرت سے لمبے سانس لینے لگے، پر آخری صفات کھولے۔

شرم و حیا کی پیکر غزل آج اتنی بدل گئی کہ نیم برہنہ لباس میں جان محفل بنی بیٹھی تھی' اس کی آنکھوں سے چھلکتے انتقام نے اس میں اتنی جاذبیت بھر دی تھی کہ اس کے گرد جمع پروانوں کے دلوں کی دھڑکن تیز۔۔۔۔"

اس کے آگے وہ مزید نہیں پڑھ سکتے تھے۔

انہوں نے تمام صفحات کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ یہ دیکھے بنا کہ جویریہ کی سانسیں بھی لیرولیر ہو رہی تھیں۔