SIZE
1 / 5

ماجد علی عرف مجوکی شادی خانہ آبادی اس کی تین عدد شادی شدہ بہنوں اور ایک عدد کنواری مگر سب پر بھاری بہن نے اپنی مشترکہ پسند نادیہ سلیم سے بڑی ہی دھوم دھام سے کروائی تھی یوں بھی وہ اپنی اماں کا اکلوتا اور

کماؤ پوت بیٹا تھا۔ جس کی کریانے کی دکان سے ہی اس کی بہنوں اور گھر کا خرچ چلا تھا۔ ویسے تو مجو بڑا ہی نیک اور ہوشیار تھا مگر بلا کا سیدھا تھا مجال ہے جو اماں اور بہنوں کے آگے اس کی زبان ان کی مخالفت میں ہل جائے۔

بچپن سے ہی اس نے صرف ایک لفظ سیکھا تھا "ہاں" اور کے علاوہ اس نے گھر میں کوئی لفظ بولنا سیکھا ہی نہیں۔ عمر نے اٹھائیس کا ہندسہ پار کیا تو اماں کو اب بہو کی ضرورت محسوس ہونے لگی البتہ ان کی کوشش یہی تھی کہ کنواری نند مدیحہ کی بھی شادی ہو جائے۔ یہ نہ ہو کہ شادی کے بعد بیٹا ماتھے پر آنکھیں رکھ لے اسی لیے شروع سے ہی دکان کا سارا خرچ و آمدنی اماں نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا تھا یہ نہ ہو کہ بیٹا شادی کے بعد پیسوں کو ترسا دے اور تو اور لڑکی کے انتخاب میں بھی بہنوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ لڑکی کے آگے پیچھے کوئی اسٹینڈ لینے والا نہ ہو اور وہ اسے خوب دبا کر رکھ سکیں۔

بن باپ کی سب سے بڑی ذمہ دار چھبیس سالہ نادیہ نے اپنی پلکوں پرڈھیروں خوب لیے ماجد کے سنگ رخصت ہوکر اس کے چھوٹے سے آشیانے میں چلی آئی مگر اس کے سہانے محبت بھرے خواب شادی کی پہلی رات ہی بری طرح چکنا چور ہو گئے تھے جب مجو نے دبے ربے لفظوں میں اسے باور کرایا تھا۔

" دیکھو نادیہ۔۔۔۔۔ میں نے کبھی اپنی ماں کو کوئی تکلیف نہیں دی' بڑی امیدیں ہیں انہیں مجھ سے اورتم سے بھی ۔ ان کا دل نہ دکھانا ان کے آگے کبھی نہ مت بولنا۔"

بولنا۔ یہ کیسا دلہا تھا جو شادی کی اولین رات ہی اسے اچھی بہو بننے کے گُر سکھا رہا تھا جبکہ یہ رات تو ان دونوں کے وصل کی محبت کی رات تھی۔ نادیہ نے بھی حھٹ پلکیں جھکا دیں' مبادا سرتاج ناراض ہی نہ ہوجائیں۔

شادی کے دوسرے روز ہی نادیہ کو اندازہ ہوگیا کہ مجو صرف اپنی اماں اور بہنوں کی سنتا ہے۔ سارا دن مجو کی اماں ساجده ' نادیہ کو گھر کے کاموں میں ہلکان کیے رکھتیں' کبھی نند کی فرمائشیں تو کبھی ساس کی' وہ بے چاری منع بھی نہ کر پاتی اور جو کبھی لب کھولنے کا سوچتی بھی تو ساس کی قہر آلود نگاہیں اس کے لب ہلنے سے پہلے ہی خاموش کرا دیتیں۔

ان سے کچھ کہنے کا مطلب اسے ناراض کراتی پر کرادیتیں۔