SIZE
2 / 4

نہیں دیا کرتے۔ لڑکی گورنمنٹ ٹیچر ہے' تین بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں۔ یہ سب سے چھوٹی ہے ' دو بہنیں شادی شدہ ہیں' شریف لوگ ہیں۔ مہینہ بھر پہلے ہی ہمارے محلےمیں شفٹ ہوئے ہیں' جس جگہ سے رہ کر آئے ہیں وہاں پرانی سہیلی رہتی تھی اس نے بتایا ہے کہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ مجھے لڑکی پسند ہے اکثر آتے جاتے دیکھتی رہتی ہوں' میں نے ان کی امی سے بات کر کے اگلے اتوار کو آنے کا کہا ہے بس اماں کوئی بدمزگی نہ ہو۔ بھائی چالیس برس کے ہوگئے ہیں اور وقت اور تیزی سے گزر رہا ہے' اگلے لمحے کی زندگی کا کسی کو کوئی بھروسہ نہیں' آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔" آپا نے اماں کو ایک سوالیہ نشان دے کر واپسی کے لیے چادر تان لی تھی۔ اماں گم صم سی آسمان کی وسعتوں کو تکنے لگیں۔

اور پھر ایک دن اماں نے خاور بھائی سے بات کرے کی ٹھانی' اتوار کا دن تھا اور حسب معمول خاور بھائی ٹی وی کے آگے بیٹھے ریمورٹ سے چینل گھما رہے تھے کہ اماں نے انہیں آواز دی۔

"خاور بیٹا! ذرا میری بات سننا۔" اماں خاور بھائی کو اپنے کمرے میں لے آئیں اور بھائی بھی ان کے قریب بیٹھ گئے۔ اماں نے خاور بھائی کے سانولے چہرے پرجاتے وقت کی دھول دیکھی توان کا دل کٹ سا گیا۔

باپ کے مرنے کے بعد بہت چھوٹی عمر میں سارے گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈال دی گئی تھی وہ زیادہ پڑھ لکھ بھی نہ ' ابا کی دکان پر بیٹھ گئے جو پھر خوب چلی ' بہنوں کی شادیاں کیں ۔ لوگوں کے اچھے برے رویے اور گھر کے اچھے برے حالات نے انہیں چڑچڑا بنا دیا تھا۔ یہ وہ خاور تو نہیں تھا جس کی ہنسی اور قہقہے گھر میں گونجتے تو سارا گھر خوش ہوتا تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔ ایک سناٹا۔ دو آنسو لڑھک کر اماں کے بوڑھے چہرے پر پھسل گئے۔ وہ انہیں دوپٹے سے پونچھنے لگیں۔

" کیا ہوا اماں !" خاور بھائی اماں کے بھیگے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر فکر مند ہو کر بولے تبھی اماں نے انہیں ایسی خاص نظروں سے نہ دیکھا نہ کبھی بلایا تھا۔ اماں نے خاور بھائی کے مضبوط کندھوں پر اپنا سر رکھا اور بولتی رہیں۔

وہ کافی دیر تک یونہی بولتیں رہیں اور خاور بھائی سنجیدہ اور مدبرانہ انداز میں بیٹھے بنا کچھ کہے سنتے رہے۔ اماں کی بات مکمل ہونے تک وہ یونہی بیٹھے رہے پر اپنے لمبے لمبے قدم اٹھا کر کمرے سے نکل گئے اماں اپنے بیٹے کے خوبرو وجود کو دیکھتی رہیں ' یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ لیے۔

" آہ میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ اللہ تیری جھولی خوشیوں سے بھر دے' آمین ۔"

وہ کپکپاتے ہاتھوں سے سجی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ تینوں خواتین کو اپنی جانب ایک ساتھ متوجہ دیکھ کر وہ گھرانے لگی۔

"لڑکی کے گھر والے کتنے خوش مزاج اور گھریلو تھے نہ' ذرا بیگانگی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔" آیا اپنے کانوں میں پڑے بھاری جھمکے اتارتے ہوئے بولیں۔

"کیا ہوا اماں! کیا لڑکی اچھی نہیں لگی؟" چھوٹی رضیہ اماں کے چہرے پر آئی شکنوں کودیکھ کر