SIZE
5 / 11

" ماموں میاں ادیب کے لفظوں کی قسمت تو دنیا والے سونے کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی قرار دے سکتے ہیں' لیکن کیا ایک سنار بھی ان لفظوں کی قیمت لگا سکتا ہے۔ اس کے لیے تو گاہک کا ہر لفظ سونے چاندی سے زیادہ قیمتی ہوتا ہو گا۔"

" پگلی۔۔۔۔" ماموں میاں نے اپنے مخصوص انداز میں اس کے سر پر چپت لگائی۔

" خوامخواہ کی اوٹ پٹانگ باتیں مت سوچو۔ فضول خیالات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو۔ خود سوچو' اگر میری شادی کے وقت تمہاری ممانی یہ ارشاد فرماتیں کہ لڑکے کے منہ سے تو پایوڈین اور ادویات کی بد بو آتی ہے۔۔۔ پھر۔۔۔۔ اچھی اچھی باتیں سوچو' اللہ سے دعا مانگو۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔"

بات نفرہ کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ماموں' ممانی نے بیسیوں طرح کے ٹوٹکے بتائے سسرال میں رہنے کے۔ جن میں سے کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آئے اور کچھ اس کے سر کے اوپر سے گزر گئے۔ حق مہر کے آٹھ تولہ زیور اور باراتیوں کے والہانہ استقبال کے ساتھ حافظ آباد سے حیدر آباد روانہ ہو گئی۔ چلتے چلتے ماموں میاں اپنا منہ اس کے کان کے پاس کر کے بولے۔

" اور بھی سب کچھ اسی طرح اچھا اچھا ہو گا' جیسے حیدر آباد اور حافظ آباد کا آخری لفظ ایک ہی ہے۔ تسلی رکھو' تمہارا دولہا مجھے سلیم النفس انسان لگا ہے۔ اللہ بہتر کرے گا۔"

سو خدشات اور ہزاروں امید بھری آرزوؤں کے ساتھ وہ سسرال پہنچ گئی۔ کھلا گھر' سندھی لب ولہجے میں بات کرنے والے لوگ۔۔۔۔ خوب آؤ بھگت سے اس کا استقبال ہوا۔ ولیمہ پورے ہفتے بعد تھا' تاکہ نفرہ کے گھر والے اپنا کام اور پھیلاوا سمیٹ کے تھکن اتار کے بچی کی خوشی میں شامل ہو سکیں۔

نفرہ کے دل کو یہ بات اچھی بھی لگی اور بری بھی۔ اچھی اس لیے کہ اس کے میکے والوں کا بہرحال یہ احترام کا ایک انداز تھا۔ بری اس لیے کہ اجنبی لوگوں میں ایک ہفتہ گزارنا۔۔۔۔۔ اس ہفتے میں ماموں میاں اور ممانی کے بھی دو فون آئے۔ ادھر ادھر کی خوب باتیں کیں۔ ولیمہ پر آنے کی خوش خبری سنائی۔ لیکن چاہنے کے باوجود وہ ولیمہ پر نہ پہنچ سکے۔

اسٹیج پر دلہن بن کر بھی ہال میں نظر دوڑائی کہ شاید ماموں میاں نظر آ جائیں۔ امی نے ان کی طبعیت کی خرابی کا بتایا۔ وہ چپ ہو گئی۔ دن گزرتے گئے۔ شروع کے ایک ڈیڑھ سال میں تو اس کے آنے بہانے سے میکے کے چکرلگتے ہی رہے۔ کبھی جہاز پر اکیلے سوار ہو جاتی اورکبھی میاں کے ساتھ مسافرت اختیار کرتی۔

ہر بندہ بشر کی طرح اس کا میاں بھی خوبیوں' خامیوں کا مجموعہ تھا۔ خوبیوں پر نظر رکھنے والا ' مقولہ ماموں نے اتنا ازبر کروا دیا تھا کہ خامیوں پر بس وہ خاموش ہو جاتی۔ ناگواری کی لہر بھی ماتھے پر نمودار ہوتی ' مگر ردعمل سے دور ہی رہتی۔ جب اس کی گود میں زوبیہ آئی تو آخری دفعہ میکے میں جی بھر کے پورے دو ماہ رہ کر آئی۔ ان دو مہینوں میں ہر چیز بدل گئی۔ رضی بھائی انگلینڈ چلے گئے۔ اپیا تینوں بچوں میں مگن۔۔۔ ماموں میاں آئے۔۔۔۔ تحائف سے لدے پھندے۔۔۔۔ سوٹ' جیولری' کیک' پھل' کتاب بھی تھی' جیسے آتے ہوئے خریدی گئی ہو۔ نئی نکور۔۔۔۔ماموں میاں اسے تھکے تھکے لگے۔۔۔۔ نفرہ کے دل کو کچھ ہوا؟

" ماموں میاں آپ کو کیا ہوا ہے۔"

" کچھ نہیں' ٹھیک ہوں۔" وہ مختصرا بولے' حالانکہ نفرہ کے لیے ان کا تکیہ کلام ہی "پگلی" تھا۔

" ماموں میاں آپ بیمار تو نہیں؟" نفرہ کو وہ بہت اداس اور تنہا دکھائی دے رہے تھے۔ گو کہ اداس اور تنہائی کی کوئی معقول وجہ تو نہیں تھی۔ ثوبیہ اپنے گھر اور بچوں میں مگن' خوش باش۔ مغیث اور منیب ڈاکٹر بن چکے تھے ۔ بلکہ اسے پتا چل چکا تھا کہممانی نے ان کے دو سگی بہنوں کا رشتہ بھی پسند کر لیا ہے۔ پچھلے ماہ ماموں ' ممانی حج کی سعادت بھی حاصل کر چکے تھے ۔ بظاہر اتنی اداسی یا کم گوئی کی وجہ تو نہیں تھی' پھر بھی اس کے دل میں عجیب سی پکڑ دھکڑ ہوئی۔

" ماموں آپ سچ سچ بتائیں' آپ کو کوئی ٹینشن تو نہیں ۔"