SIZE
4 / 11

بس ان ہی چکروں اور دنیا داری کے گورکھ دھندوں میں اپیا کی اور پھر ثوبیہ کی شادی بھی ہو گئی۔ اپیا حاصل پور والوں کو پیاری ہو گئیں اور ثوبیہ آپی اپنے ماموں زاد بھائی بلال کی دلہن بن کر کینیڈا شفٹ ہو گئیں ۔ اپنے والدین کے پاس تو وہ موجود تھی' اسے ماموں ممانی کی تنہائی کا دکھ کھائے جاتا۔ مغیث اور منیب بھی باپ کی طرح ایف ایس سی پری میڈیکل کے طالب علم تھے اور سننے میں بھی یہی آیا کہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں میرٹ پر آنے کے لیے۔

اس کی زندگی میں پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وہ سات آٹھ ماہ سے ماموں میاں سے ملنے نہ جا سکی تھی۔ بالعموم ماموں میاں ہی اسے ہفتہ دس دن کے بعد فون کرتے تو اس کا چھوٹے بچوں کی طرح جی مچلتا کہ کاش فون کے ریسیور سے نکل کے ماموں کے پاس پہنچ جاؤں ۔ مگر ایسا ہونا کہاں ممکن تھا۔

ممکن تو بہت سی باتیں نہیں تھیں۔ جیسے ماموں میاں کی دبی دبی خواہش تھی کہ نفرہ کی شادی کے لیے وہ خود اچھا سا لڑکا ڈھونڈیں سبزی' پھل اور کپڑا بیچنے والوں میں واحد ادبی ذوق رکھنے والی حساس نرم و نازک سی نفرہ تنہا نہ رہ جائے۔ ماموں میاں نے کوشش بھی کی ' لیکن وہی ہوا جس کا خوف نفرہ کے سینے میں پنجے گاڑے ہوئے تھا۔ نفرہ کے پڑوس میں شادی تھی۔ اپیا اور ثوبی آپی کی شادی کے بعد تنہا رہنے کی اتنی عادی ہو چکی تھی' کہ ماں کے کہنے کے باوجود نہ مانی۔ ابا اور بھائی نے اسے شادی میں شرکت پر آمادہ کیا۔ بے دلی سے عام سا جوڑا پہن کر بغیر ہار سنگھار کیے وہ چلی گئی۔ دلہن کی رخصتی سے پہلے وہ گھر بھی واپس آ گئی۔ اسی آدھ گھنٹے کی شرکت نے نے اس کا مقدر کا سنجوگ حیدر آباد سے جوڑ دیا۔ باراتیوں سے ابا کے خوش گوار تعلقات پیدا ہوئے۔ ان کی خواتین کو نفرہ پسند بھی آ گئی۔ اس کے چہرے پر تیزی طرارئ کی بجائے سادگی اور بھولپن تھا۔ انہیں ایسی ہی لڑکی درکار تھی۔

اس سے پوچھا گیا۔ رشتہ کے حق میں ہزار دلائل دیے گئے۔۔۔ لیکن دلائل نفرہ کے پاس بھی تھے۔۔۔۔ نہ ماننے کے ایک ہزار ایک دلائل۔۔۔۔ دبے دبے لفظوں میں اس نے ماں سے کہا کہ " پوچھ تو لیں کہ جس سے میرا عمر بھر کا ناتا جوڑ رہی ہیں ' وہ کرتا کیا ہے۔ کیا مشاغل ہیں ' کیا ذوق ہے؟" رضی بھائی ٹھٹھا مار کر ہنسے۔

" ابا نے سب معلومات لی ہیں ۔ ماں ' باپ کبھی کسی کا برا نہیں سوچتے' رہی بات کچھ کرنے کی' اس کی حیدر آباد لطیف آباد میں سب سے مشہور جیولری شاپ ہے۔ زرگر۔۔۔ سونا بنانے اور بیچنے والے۔۔۔۔ ارے سونے میں تولی جاؤ گی۔"

" بھائی! ماموں سے تو مشورہ کر لیں۔"

وہ ایک لمحہ کے لیے چپ ہوئے' پھر اچھل کر بولے۔ " ان کی ثوبیہ بھی تو کاروباری لوگوں میں گئی ہے۔

" لیکن بھائی میرا اور ثوبی کا مزاج بہت مختلف ہے۔"

" چھوڑو' پرے ہو۔ عورتوں کے اپنے اپنے گھروں میں جا کر ایک جیسے مزاج ہو جاتے ہیں۔" اماں خدا جانے کب سے دروازے کی اوٹ سے ان کی گفتگو سن رہی تھیں۔ جھٹ سے بولیں۔

" خود ہی بتاؤ' کیا تمہارے ماموں کا ممانی سے مزاج ملتا تھا۔ ادب کی الف' ب سے واقف نہیں تھی لیکن آج اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب اور زبان پر ادیبوں' شاعروں کی باتیں ہوتی ہیں۔ اچھی بیویاں اپنے شوہروں کی پسند میں لا شعوری طور پر غیر محسوس طریقے سے ڈھل جاتی ہیں۔

بیٹا! بہت سلجھے ' کھاتے پیتے' گھرانے کے لوگ ہیں۔ فیملی بھی بہت بڑی نہیں۔ باقی خوشیاں ہم مزاج لوگوں کا ہی مقدر ہوتیں' تو دنیا کے سارے بے ادب دکھی اور ادیب خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے۔"

نفرہ ایسے ہی کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی۔ اب مزید کیا کہتی؟کیا اپیا سے ان کے رشتہ کے بارے میں رائے لی گئی تھی؟قطعی نہیں' اس لیے اس نے بھی چپ کا تالا منہ پر لگا لیا۔ ایک چپ سو سکھ۔۔۔۔۔

چار چھ مہینوں کے بعد شادی بھی ہو گئی۔ شادی میں ماموں میاں آئے۔ نقد رقم' تحائف اور اس کی کتابوں سے لدے پھندے۔۔۔۔ ممانی بھی آئیں' مگر ثوبیہ ملک سے باہر اور مغیث' منیب کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو چکا تھا۔ وہ نہ آ سکے۔

ماموں میاں کی گود میں سر رکھ کر وہ بہت روئی' مچلی۔