SIZE
2 / 12

" اس کا نام شگفتہ ہے اور وہ اپنی نہیں صرف میری ہے۔" میں نے دانت کچکچاۓ۔

"اوۓ! اس نے خود ہی اپنا یہ نام رکھا ہے گوری میموں والا ۔ پورے محلے میں سب سے چٹی ہے ناں اس لیے۔"

اس نے معنی خیزی سے ایک آنکھ دبائی۔ میرا جی چاہا لسی سے بھرا گلاس اس کے منہ پر الٹ دوں۔ جس میں سے اب تک میں نے ایک گھونٹ بھی نہ پیا تھا۔

" کام کی بات کر' بکواس نہ کر۔"

" ارے! کام کی بات سے یاد آیا۔ دو تین سو روپے تو ہوں گے تیرے پاس۔"

میں جو دھیان سے سننے کے لیے اس کی جھک کر اس کی گدلی سرمئی آنکھوں اور پان کھاۓ ہوۓ دانتوں کے قریب ہو گیا تھا۔ تپ کر پیچھے ہٹ گیا۔

" دے دے یار! دیکھ صرف تیرے کام کے لیے بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ پہلے تیرے گھر گیا پھر یہاں۔۔۔۔"

اس کی نئی رام کہانی شروع ہونے سے پہلے میں نے پانچ سو کا نوٹ میز پر دھر دیا۔ اس کے مکروہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

" بس شہزادے! تیری یہی بات تو میرے دل۔۔۔۔"

" تو یہ بتا کہ شگفتہ کیا کہہ رہی تھی۔"

" وہ تو مجھے نہیں پتا' بس چھت پر بلا رہی تھی۔" اس نے شان بے نیازی سے نوٹ اٹھا لیا۔

" اور تو اب بتا رہا ہے!"

گالی حزف کر کے میں عجلت میں کھڑا ہو گیا اور بجاۓ چھوٹے کا انتظار کرنے کے خود ہی کاؤنٹر کی طرف لپک گیا۔

میری اور شگفتہ کی سیدھی سادی سی لو اسٹوری تھی۔ میرے اور شگفتہ کے گھر کے درمیان ایک گھر تھا ۔ گھر کی چھت ہم دونوں کے گھروں کی چھتوں سے کچھ ایسے ملی ہوئی تھی کہ باسانی ایک دوسرے تک کی چھت تک کا سفر طے کیا جا سکتا تھا۔

یہ تھوڑا نچلے درجے کا محلہ تھا۔ گھروں کے حالات' ان کے ملتے جلتے نقشوں جیسے ہی تھے ۔ بچپن ان ہی گلیوں میں کھیلتے کودتے ' لڑکپن کی اٹھکھیلیاں کرتے ہوۓ گزرا تھا۔

سالوں پہلے بچپن کے زمانے میں جب محلے بھر کی لائٹ جاتی تو گھروں کے آگے بنے پکے سیمنٹ کے چبوترے اسے چاندنی ہو یا اماؤس ' آباد ہی رہتے۔

یہ وہ وقت تھا ۔ جب گرما' پت جھڑ اور بہار کی ٹھنڈی ہواؤں اور کبھی حبس والی راتیں' وقت بے وقت چلی جانے والی اور پھر سرپرائز دے کر اچانک ہی واپس آ جانے والی بجلی کے انتظار میں گھر سے باہر ہی گزرتی تھیں۔ جنریٹر کا صرف نام سن رکھا تھا اور یو پی ایس تو شاید ایجاد تک نہ ہوا تھا۔

پرانا دور تھا مگر کیا خوب تھا ۔

محلے دار یوں تھے گویا ایک خاندان کے لوگ ' اور چوڑی گلی ایسی تھی جیسے گھر کا آنگن۔ اسی اسی گز کے آگے بنی پتلی اور قدرے چوڑی گیلریوں میں لگے آم' امرود اور شریفے کے درخت بلاشبہ آدھی گلی کو گھیر کر سایہ کیے رکھتے اور کبھی کبھی تو پوری پوری رات ہی ان چند اینٹوں کے پکے چبوتروں پر ٹانگیں پھیلاۓ خوش گپیاں کرتے گزرتی۔