SIZE
2 / 7

وہ آبدیدہ ہو کر بولی اور اٹھ کر چلی گئی۔

" حسن بھائی بھی حد کر دیتے ہیں سارہ بابھی کا دل دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ نا جانے اپنی ناکام محبت کا بدلہ کب تک بھابی سے لیتے رہیں گے!" عنبر دکھی دل سے سوچ رہی تھی۔

" کیا بات ہے بہت خوش لگ رہی ہو؟" فروا کو چہکتا ہوا دیکھ کر عنبر نے پوچھا۔

ایک بڑی اچھی خبر ہے۔ ابو کے ایک جاننے والے نے ایک لیکچرار کا بتایا ہے۔ انگلش میں ایم فل کر رہے ہیں۔ بے حد گریس فُل پرسنیلٹی ہے۔ فرفر انگلش بولتے ہیں!“ فروا خوشی سے دیوانی ہو ک رہی تھی۔

" چلو بھئی تمہارا یہ مسئلہ تو حل ہوا!" عنبر مسکراتے ہوۓ بولی۔

" عنبر وہ اتنے سمارٹ ہیں کہ ٹین ایجرز کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں!" فروا پُرجوش لہجے میں بولی۔

" ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ محترمہ کی ٹیچر میں دلچسپی زیادہ ہے اور پڑھائی میں کم۔۔۔۔ اگر یہی عالم رہا تو بی اے میں آپ کی سپلی سو فیصد پکی ہے!" عنبر ہنسی۔

" ہاے اللہ نہ کرے!" فروا نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔

" اچھا اب یہ ٹیچر نامہ بند کرو۔۔۔۔۔ چلو اب اگلی کلاس اسٹارٹ ہونے والی ہے۔" عنبر نے اسے بازو سے کھینچتے ہوئے کہا۔

" بھائی آپ لوگ کہیں جا رہے ہیں؟" عنبر نے حسن کو تیار ہوتے دیکھ کر پوچھا۔

" ہاں ایک جگہ ڈنر ہے وہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ لوگوں کو بھی نا جانے کیا سوجھتی ہے بیگمات کو بھی ساتھ مدعو کر لیتے ہیں!" اس نے کہتے ہوۓ غصے سے سر جھٹکا۔

" حسن بھائی یہ تو اچھی بات ہے کہ سارہ بھابی بھی آپ کے ساتھ چلی جاتی ہیں ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے!" عنبر قائل کرنے والے انداز میں بولی۔

" اعتماد۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ تو میرا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ نا جانے کس دل سے لوگوں سے اس کا تعارف کرواتا ہوں۔۔۔۔ امی نے پتا نہیں دنیا سے جاتے جاتے مجھ سے کس بات کا بدلہ لیا جو اس ایف کے پاس کو ہر میرے پلے باندھ گئیں۔" ان کا زہر اگلتا لہجہ عنبر کو دکھی کر گیا۔

" حسن بھائی اب ساره بھابی اتنی بھی گئی گزری نہیں ہیں ' بلکہ مجھے تو اکثر لگتا ہے کہ آپ کے رویے نے ان کی شخصیت کو دبا سا دیا ہے کہ وہ خود کو جاہل سمجھنے لگی ہیں!" عنبر نے سارہ کی حمایت کرتے ہوۓ کہا.

اسی دوران سارہ آ گئی ہلکے نیلے رنگ کی ساڑھی میں ہلکا سا میک اپ کیے وہ بے حد اچھی لگ رہی تھی۔

" بھابی بہت اچھی لگ رہی ہیں!" عنبر نے دل سے تعریف کی۔ حسن نے سارہ کی سادہ سی تیاری پر تنقیدی نگاہوں سے گھورا تھا۔ سارہ اس کی نظروں کی برہمی سمجھ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔